آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ المجادلۃ

اس سورۃ مبارکہ کا نام المجادلۃ اس لیے پڑ گیا کہ اس کی ابتداء میں اوس بن صامت کی زوجہ کی طرف سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کا ذکر ہے۔ المجادلۃ تکرار اور بحث کرنے کے معنوں میں ہیں۔

یہ سورۃ بالاتفاق مدنی ہے کسی نے اس بارے میں اختلاف نہیں کیا ہے۔

اس سورۃ کی ابتداء میں ظہار کا حکم بیان ہوا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی رکھنے والوں کا ذکر ہے۔

مجلس و محفل میں بیٹھنے کے آداب کا ذکر ہے

مناجات و سرگوشی کے لیے صدقہ دینے کا حکم پھر اس کے نسخ کا بیان ہے۔

اس سورۃ مبارکہ میں اس آیت کا ذکر ہے جس پر صرف حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے عمل کیا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَدۡ سَمِعَ اللّٰہُ قَوۡلَ الَّتِیۡ تُجَادِلُکَ فِیۡ زَوۡجِہَا وَ تَشۡتَکِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ٭ۖ وَ اللّٰہُ یَسۡمَعُ تَحَاوُرَکُمَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ﴿۱﴾

۱۔ بے شک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی اور اللہ آپ دونوں کی گفتگو سن رہا تھا، اللہ یقینا بڑا سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

تشریح کلمات

تَشۡتَکِیۡۤ:

( ش ک ی ) الشکوا اظہار کے معنوں میں ہے۔ مجمع البیان میں آیا ہے: الاشتکاء انسان میں موجود نامطلوب چیز کا اظہار کرنا ہے جبکہ الشکایۃ کے معنی کسی غیر کی طرف سے آنے والے نامطلوب چیز کا اظہار کرنا ہے۔

تَحَاوُرَ:

( ح و ر ) ایک دوسرے کی طرف کلام لوٹانا۔ (تبادلہ گفتگو)

تفسیر آیات

۱۔ انصار کے ایک شخص نے غصے میں آ کر اپنی عورت سے کہا: انت علی کظھر امی تو میرے لیے میری ماں کی پیٹھ جیسی ہے۔ جاہلیت میں عورت سے جدائی اختیار کرنے کے لیے طلاق سے زیادہ مؤثر یہی عمل تھا جس سے عورت ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی تھی۔ یہ خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس مسئلے کے حل کے لیے اصرار کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔-


آیت 1