آیت 8
 

وَ مَا لَکُمۡ لَا تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ۚ وَ الرَّسُوۡلُ یَدۡعُوۡکُمۡ لِتُؤۡمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ وَ قَدۡ اَخَذَ مِیۡثَاقَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۸﴾

۸۔ اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے؟ جب کہ رسول تمہیں تمہارے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے مضبوط عہد لے چکا ہے اگر تم ماننے والے ہو۔

تفسیر آیات

رسول اللہ براہ راست وحی کے ذریعے تمہیں ایمان کی دعوت دے رہے ہیں، اس کے باوجود تم غیر ایمانی روش اختیار کیے ہوئے ہو۔

واضح رہے یہ خطاب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گرد و پیش ظاہری ایمان والوں سے ہے۔ اگر ہم اَخَذَ کا فاعل یعنی عہد لینے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو لیتے ہیں جیسا کہ مفسر ابن کثیر نے لیا ہے، اس صورت میں میثاق سے مراد وہ عہد و میثاق ہو سکتا ہے جو ایمان لانے کے وقت مسلمان، اللہ اور رسول کے ساتھ کرتے تھے۔ چنانچہ فرمایا:

وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ مِیۡثَاقَہُ الَّذِیۡ وَاثَقَکُمۡ بِہٖۤ ۙ اِذۡ قُلۡتُمۡ سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۷)

اور اس نعمت کو یاد کرو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہے اور اس عہد و پیمان کو بھی جو اللہ نے تم سے لے رکھا ہے،جب تم نے کہا تھا: ہم نے سنا اور مانا۔

اس صورت میں وَ مَا لَکُمۡ لَا تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ سے مراد عدم اطاعت ہے جو حقیقی ایمان کے نہ ہونے کی علامت ہے۔ یعنی تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ اور رسول کی اطاعت نہیں کرتے۔ آیت کے آخر میں اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ اگر تم مومن ہو اس تفسیر پر قرینہ بن سکتا ہے۔ یعنی رسمی ایمان والوں کو حقیقی ایمان کی دعوت ہے کہ اگر تم مومن ہو تو تمہارے ایمان کے اثرات سامنے آنے چاہئیں مثلاً انفاق فی سبیل اللہ ۔


آیت 8