آیت 7
 

اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ اَنۡفَقُوۡا لَہُمۡ اَجۡرٌ کَبِیۡرٌ﴿۷﴾

۷۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں جانشین بنایا ہے، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائیں اور (راہ خدا میں) خرچ کریں ان کے لیے بڑا ثواب ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ: اللہ تعالیٰ کی خالقیت، مالکیت اور ربوبیت کے ذکر کے بعد ایمان کی دعوت ہے کہ مومنین اپنا ایمان پختہ کریں اور ایمان کے آثار ان کے عمل میں ظاہر ہونے لگ جائیں۔ بعض مفسرین کے نزدیک ایمان کی یہ دعوت اہل ایمان کے لیے ہے۔ جس طرح فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۱۳۶)

اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے، سچا ایمان لے آؤ ۔

۲۔ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ: ایمان کے ساتھ ہی انفاق کا حکم آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انفاق، ایمان کی علامات میں سے اہم علامت ہے چونکہ مال انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے۔ چنانچہ فرمایا:

وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿۲۰﴾ (۸۹ فجر: ۲۰)

اور مال کے ساتھ جی بھرکرمحبت کرتے ہو

نیز فرمایا

وَ اِنَّہٗ لِحُبِّ الۡخَیۡرِ لَشَدِیۡدٌ ﴿۸﴾ (۱۰۰ عادیات: ۸)

اور وہ مال کی محبت میں سخت ہے۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

یَنَامُ الرَّجُلُ عَلَی الثُّکْلِ وَلَا یَنَامُ عَلَی الْحَرَبِ۔ (نہج البلاغۃ حکمت: ۳۰۷)

اولاد کے مرنے پر آدمی کو نیند آ جاتی ہے مگر مال کے چھن جانے پر اسے نیند نہیں آتی۔

۳۔ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ: اس مال کو خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں جانشین بنایا ہے۔ اس میں دو نظریے ہیں: ایک یہ کہ اس میں تمہیں دوسروں کا جانشین بنایا کہ یہ مال دوسروں سے بذریعہ وراثت تمہاری طرف منتقل ہوا ہے۔ چند روز تمہارے ہاتھ میں ہے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ مالک حقیقی اللہ نے تصرف کی اجازت دی ہے۔ لہٰذا مال اللہ کا ہے تم اللہ کی طرف سے مجاز ہو۔ شاید یہ نظریہ زیادہ قرین واقع ہے چونکہ ضروری نہیں کہ مال کسی دوسرے سے اس کی طرف منتقل ہوا ہو۔ ہو سکتا ہے انسان کے پاس جو بھی مال ہے وہ سب اپنا کمایا ہوا ہے۔

۴۔ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ اَنۡفَقُوۡا: دو چیزیں اگر انسان میں موجود ہوں تو وہ اجر کبیر کا مستحق ٹھہرتا ہے: ایمان اور انفاق۔ چونکہ ایمان سے عبد کا اللہ تعالیٰ سے تعلق اور ربط قائم ہو جاتا ہے اور انفاق سے عبد خدا کے ساتھ تعلق قائم ہوتا ہے لہٰذا اجر کبیر کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو اپنے رب پر ایمان رکھتے ہوں اور اپنے رب کی مخلوق پر انفاق کرتے ہوں۔ مال اگرچہ اللہ کا ہے لیکن اس نائب نے خیانت نہیں کی اس لیے اجر کبیر ملتا ہے۔ واضح رہے انفاق کا یہ حکم اس وقت سے متعلق ہے جب مدینہ کے ایک مٹھی بھر مسلمان عالم کفر و شرک کے نرغے میں اور انتہائی خطرناک صورت حال سے دوچار تھے۔ اس وقت اسلام کے دفاع کے لیے مال خرچ کرنا ایمان کا اہم ترین جزو تھا۔


آیت 7