آیات 7 - 10
 

وَّ کُنۡتُمۡ اَزۡوَاجًا ثَلٰثَۃً ؕ﴿۷﴾

۷۔ اور تم تین گروہوں میں بٹ جاؤ گے۔

فَاَصۡحٰبُ الۡمَیۡمَنَۃِ ۬ۙ مَاۤ اَصۡحٰبُ الۡمَیۡمَنَۃِ ؕ﴿۸﴾

۸۔ رہے داہنے ہاتھ والے تو داہنے ہاتھ والوں کا کیا کہنا۔

وَ اَصۡحٰبُ الۡمَشۡـَٔمَۃِ ۬ۙ مَاۤ اَصۡحٰبُ الۡمَشۡـَٔمَۃِ ؕ﴿۹﴾

۹۔ اور رہے بائیں ہاتھ والے تو بائیں ہاتھ والوں کا کیا پوچھنا۔

وَ السّٰبِقُوۡنَ السّٰبِقُوۡنَ ﴿ۚۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور سبقت لے جانے والے تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَّ کُنۡتُمۡ اَزۡوَاجًا ثَلٰثَۃً: قیامت کے ان تمام انسانوں کو ان کے اعمال کی روشنی میں تقسیم کیا جائے گا تو تین گروہ میں بٹ جائیں گے: اصحاب یمین، اصحاب شمال اور سابقین۔

اصحاب یمین: داہنے ہاتھ والے یا برکت والے۔ اصل میں لفظ الۡمَیۡمَنَۃِ استعمال ہوا ہے جو کبھی میسرۃ کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے جیسے لشکر کا میمنہ اور میسرہ کہتے ہیں اور جب یہ لفظ الۡمَشۡـَٔمَۃِ کے مقابلے میں استعمال ہو تو اس کے معنی نیک بخت کے ہو جاتے ہیں۔ اس لیے مفسرین نے فرمایا: المیمنۃ من الیمن مقابل الشوم۔ لفظ میمنۃ ، یمن سے ہے جو نیک بخت کے معنوں میں اور شومیت کے مقابلے میں ہے۔ بعض فرماتے ہیں: انہیں اصحاب یمین اس لیے کہا ہے کہ قیامت کے دن ان کا نامۂ اعمال داہنے ہاتھ میں آئے گا جو نجات کی علامت ہے۔

مَاۤ اَصۡحٰبُ الۡمَیۡمَنَۃِ: اس جماعت کی سعادت اور خوش بختی کے بارے میں تعجب آمیز لہجے میں سوالیہ جملہ ہے کہ ان کی سعادتمندی اور نیک نصیبی کا کیا کہنا۔

وَ اَصۡحٰبُ الۡمَشۡـَٔمَۃِ: لفظ مشئمۃ کو شوم سے ماخوذ سمجھا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہو گا یہ وہ لوگ ہوں گے جو شومی قسمت اور بد نصیبی سے دوچار ہوں گے۔ اور اگر بائیں ہاتھ والے معنی کیا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہو گا یہ ذلت و رسوائی سے دوچار ہوں گے چونکہ داہنے ہاتھ کی بہ نسبت باہنے ہاتھ کو بے اہمیت اور بے وقعت سمجھا جاتا ہے اور عربوں میں رواج تھا کہ کم اہمیت کے لوگوں کو بائیں ہاتھ کی طرف بٹھاتے تھے۔

وَ السّٰبِقُوۡنَ: السّٰبِقُوۡنَ وہ لوگ ہیں جو حق کے ظہور کے موقع پر ایمان و اطاعت میں دوسروں پر سبقت حاصل کریں۔ شیخ طوسیؒ نے سابقین کی تعریف میں: فصاروا ائمۃ الھدی کا اضافہ کیا ہے یعنی سبقت کے نتیجے میں وہ ہدایت کے امام ہو گئے۔

السّٰبِقُوۡنَ کی یہ تعریف اگلی آیات کے سیاق و سباق کے مطابق ہے۔ پس سابقین وہ ہیں جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے جب بھی حق کا ظہور ہوا اور اللہ کی طرف دعوت شروع ہوئی، اس پر لبیک کہنے میں پہل کی۔

السّٰبِقُوۡنَ: جو لوگ ایمان اور دعوت الی اللّٰہ پر لبیک کہنے میں سبقت لے جانے والے ہیں۔ السّٰبِقُوۡنَ وہ جزائے عمل اور حصول مراتب میں بھی سبقت لے جانے والے ہوں گے۔ دوسرے لفظوں جن لوگوں نے ایمان میں اول درجہ حاصل کیا وہ فضیلت میں بھی اول درجے پر فائز ہوں گے۔

احادیث میں آیا ہے کہ السّٰبِقُوۡنَ کے مصادیق میں صف اول کی مصادیق چند ہستیاں ہیں:

عن ابن عباس قال: نزلت فی حزقیل مومن آل فرعون و حبیب النجار الذی ذکرنی یٰسٓ و علی بن ابی طالب و کل منہم سابق امتہ و علی افضلہم۔ ( روح المعانی ذیل آیت)

ابن عباس سے روایت ہے: یہ آیت نازل ہوئی آل فرعون کے مومن حزقیل، حبیب النجار جس کا سورہ یٰسٓ میں ذکر ہے اور علی بن ابی طالب کے بارے میں۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنی امت میں سبقت لی ہے اور علی ان میں افضل ہیں۔

اس مضمون سے قریب روایت کو بیان کیا ہے حضرت ابن عباس سے درج ذیل راویوں نے:

مجاہد

ii۔ ضحاک : ان کی رایت میں ذاک علی و شیعتہ الی الجنۃ

iii۔ سدی: نزلت فی علی

iv۔ مالک الغفاری: سابق ھذہ الامۃ علی بن ابی طالب۔ ابو نعیم نے اپنی کتاب مانزل من القرآن فی علی میں ذکر کیا ہے۔

عطا بن ابی ریاح ۔ ابن مردویہ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔

نیز ملاحظہ ہو الدر المنثور۔ تفسیر ابن کثیر ۴: ۲۸۳ طبع مصر۔ فتح القدیر ۵: ۱۴۸ طبع مصر۔


آیات 7 - 10