آیات 7 - 8
 

وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الۡحُبُکِ ۙ﴿۷﴾

۷۔ قسم ہے راہوں والے آسمان کی،

اِنَّکُمۡ لَفِیۡ قَوۡلٍ مُّخۡتَلِفٍ ۙ﴿۸﴾

۸۔ تم لوگ یقینا متضاد باتوں میں پڑے ہوئے ہو۔

تفسیر آیات

حبک راستوں کو بھی کہتے ہیں اور محکم اور مضبوطی کے معنوں میں بھی آیا ہے۔

۱۔ لہٰذا ہو سکتا ہے اس آیت کا یہ ترجمہ ہو: قسم ہے مضبوط و محکم آسمان کی۔ اگر راستے مراد لیے جائیں تو ہمیں یہ بات اس وقت پوری طرح معلوم نہیں ہے۔ آنے والی نسلوں کو بہتر معلوم ہو سکے گا چونکہ آج کے ماہرین فلکیات کے لیے کسی حد تک معلوم ہونا شروع ہو گیا ہے کہ آسمان میں راستے ہیں۔ جیسے فرمایا:

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا فَوۡقَکُمۡ سَبۡعَ طَرَآئِقَ۔۔۔۔ (۲۳ مومنون: ۱۷)

اور بتحقیق ہم نے تمہارے اوپر سات راستے بنائے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

سَلُونِی قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُونِی فَلَاَنَا بِطُرُقِ السَّمَائِ اَعْلَمُ مِنِّی بِطُرُقِ الْاَرْضِ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ خ ۱۸۹)

مجھے کھو دینے سے پہلے مجھ سے پوچھ لو اور میں زمین کی راہوں سے زیادہ آسمان کے راستوں سے واقف ہوں۔

۲۔ اِنَّکُمۡ لَفِیۡ قَوۡلٍ مُّخۡتَلِفٍ: کبھی کہتے ہو قرآن محمد کی اپنی تصنیف ہے کبھی کہتے ہو یہ داستان پارینہ ہے، کبھی کہتے ہو اسے کوئی اور تعلیم دیتا ہے، کبھی کہتے ہو یہ کاہن ہے، کبھی ساحر، کبھی شاعر، کبھی مجنون کہتے ہو۔ اگر ہمارے رسول میں کسی قسم کی کمزوری پائی جاتی تو تم سب اس کمزوری کو متفقہ طور پر اُٹھاتے۔ مختلف الزامات عائد کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس رسول میں تم کو کوئی کمزوری نہیں ملی ہے۔


آیات 7 - 8