آیت 6
 

وَّ یُعَذِّبَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ وَ الۡمُشۡرِکٰتِ الظَّآنِّیۡنَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السَّوۡءِ ؕ عَلَیۡہِمۡ دَآئِرَۃُ السَّوۡءِ ۚ وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ وَ لَعَنَہُمۡ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَہَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا﴿۶﴾

۶۔ اور (اس لیے بھی کہ) منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کو جو اللہ کے بارے میں بدگمانی کرتے ہیں عذاب میں مبتلا کرے، یہ لوگ گردش بد کا شکار ہو گئے اور ان پر اللہ نے غضب کیا اور ان پر لعنت کی اور ان کے لیے جہنم آمادہ کر رکھی ہے جو بہت برا انجام ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَّ یُعَذِّبَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ: مومنین کے دلوں میں سکون نازل ہونے سے دوسری بات یہ سامنے آتی ہے کہ اسلامی تحریک کی کامیابی سے منافقین اور مشرکین شکست اور ناکامی کی ذلت و خواری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ مومنین میں عدم سکون اور اضطراب کی صورت میں منافقین کو اپنی سازش بروئے کار لانے کا موقع ملتا تھا۔

۲۔ الظَّآنِّیۡنَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السَّوۡءِ: یہ منافقین اللہ کے بارے میں بدگمانی کرتے تھے کہ اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سفر میں دشمنوں سے نہیں بچائے گا اور مسلمان اس خطرناک سفر سے واپس نہیں آ سکیں گے۔ چنانچہ مسلمانوں کی فاتحانہ واپسی منافقین کے لیے دنیا میں عذاب ثابت ہوئی۔

۳۔ عَلَیۡہِمۡ دَآئِرَۃُ السَّوۡءِ: منافقین خود گردش بد کا شکار ہو گئے۔ یہ منافقین اور مشرکین کے خلاف ایک بددعا ہے کہ جس سازش کے تحت وہ مسلمانوں کو گردش بد کا شکار کرنا چاہتے تھے وہ خود اس میں مبتلا ہو جائیں۔

۴۔ وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ: اور وہ اللہ کے غضب اور لعنت یعنی رحمت سے دوری میں مبتلا ہو گئے جو ان کے لیے نہایت بری گردش ہے۔

اہم نکات

۱۔ مومنین کا ایمان، منافق اور مشرک کے لیے ایک عذاب ہے۔

۲۔ ایمانی طاقت ہی دشمنوں کی سازشوں کا بہترین مقابلہ ہے۔


آیت 6