آیات 4 - 6
 

فَاِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَضَرۡبَ الرِّقَابِ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَثۡخَنۡتُمُوۡہُمۡ فَشُدُّوا الۡوَثَاقَ ٭ۙ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعۡدُ وَ اِمَّا فِدَآءً حَتّٰی تَضَعَ الۡحَرۡبُ اَوۡزَارَہَا ۬ۚ۟ۛ ذٰؔلِکَ ؕۛ وَ لَوۡ یَشَآءُ اللّٰہُ لَانۡتَصَرَ مِنۡہُمۡ وَ لٰکِنۡ لِّیَبۡلُوَا۠ بَعۡضَکُمۡ بِبَعۡضٍ ؕ وَ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَلَنۡ یُّضِلَّ اَعۡمَالَہُمۡ﴿۴﴾

۴۔ پس جب کفار سے تمہارا سامنا ہو تو (ان کی) گردنیں مارو یہاں تک کہ جب انہیں خوب قتل کر چکو تو (بچنے والوں کو) مضبوطی سے قید کر لو، اس کے بعد احسان رکھ کر یا فدیہ لے کر (چھوڑ دو) تاوقتیکہ لڑائی تھم جائے، حکم یہی ہے اور اگر اللہ چاہتا تو ان سے انتقام لیتا لیکن (اللہ کو یہ منظور ہے کہ) تم میں سے ایک کا امتحان دوسرے کے ذریعے سے لے اور جو لوگ راہ خدا میں شہید کیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہرگز حبط نہیں کرے گا۔

سَیَہۡدِیۡہِمۡ وَ یُصۡلِحُ بَالَہُمۡ ۚ﴿۵﴾

۵۔ وہ عنقریب انہیں ہدایت دے گا اور ان کی حالت کی اصلاح فرمائے گا۔

وَ یُدۡخِلُہُمُ الۡجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمۡ﴿۶﴾

۶۔ اور انہیں جنت میں داخل کرے گا جس کی انہیں پہچان کرا دی ہے۔

تشریح کلمات

اثخن:

( ث خ ن ) کسی چیز کا گاڑھا ہو جانا کہ بہنے سے رک جائے۔ اسی سے کہتے ہیں: اثخنتہ ضرباً میں نے اسے اتنا پیٹا کہ وہ حرکت نہ کر سکا۔ اسی سے خوب قتل کے لیے استعمال ہوا ہے۔

الۡوَثَاقَ:

( و ث ق ) الۡوَثَاقَ اس زنجیر یا رسی کو کہتے ہیں جس میں باندھا جائے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَاِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: کافروں کے ساتھ جنگ کی نوبت آنے کی صورت میں جب میدان جنگ میں کافروں کا سامنا ہو جائے تو درج ذیل جنگی حکمت عملی پر عمل کرنے کا حکم ہے:

۲۔ پہلا حکم یہ ہے کہ فَضَرۡبَ الرِّقَابِ دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور میدان جنگ میں دشمن کی طاقت پر ضرب لگانا ہی جنگ ہے جہاں جنگ ناگزیر ہے۔

۳۔ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَثۡخَنۡتُمُوۡہُمۡ: یہاں تک کہ جب دشمن پر کاری ضرب لگا چکو اور دشمن کی قوت و طاقت کو خوب اچھی طرح ناکارہ کر چکو تو اسیر پکڑنے کی نوبت آتی ہے۔

۴۔ فَشُدُّوا الۡوَثَاقَ: دشمن کو کچلنے کے بعد بچے کچھے لوگوں کو قیدی بنانے کی اجازت ہے۔

۵۔ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعۡدُ وَ اِمَّا فِدَآءً: اس کے بعد احسان کے طور پر بغیر فدیہ لیے یا فدیہ لے کر بھی قیدی کو چھوڑ سکتے ہو۔

جنگی حکمت عملی کے تحت لڑائی میں فتح و شکست کا فیصلہ ہونے سے پہلے قیدی بنانے کی ممانعت ہے کیونکہ عین لڑائی کے دوراں قیدی بنانا شروع کیا جائے تو درج ذیل نقصانات کا اندیشہ ہوتا ہے:

الف: اگر جنگ کے دوراں قیدی بنانا جائز ہو جائے تو لشکر کی طاقت کا ایک حصہ قیدی بنانے پر صرف ہو جائے گا اس طرح طاقت کا توازن بگڑ سکتا ہے۔

ب: قیدی بننے کا خطرہ قتل سے کم ہے اس لیے دشمن کو اس سے نفسیاتی طور پر فائدہ مل جاتا ہے۔

ج: یہ بات حربی حکمت عملی کے بھی منافی ہے کہ دشمن قتل کرے اور ادھر قتل کی جگہ قیدی بنایا جائے۔

د: دوران جنگ قیدی بنانے پر پابندی اس لیے بھی ضروری ہے کہ لوگ فدیہ حاصل کرنے یا غلام بنانے کے لالچ میں اصل مقصد کو فراموش نہ کریں۔

ھ: اسلامی حربی قوانین کے تحت حکم یہ ہے کہ دوران جنگ دشمن کو قتل کرو، قیدی نہ بناؤ اور دشمن کی طاقت کچلنے کے بعد بچے کھچے لوگوں کو اسیر بناؤ، قتل نہ کرو۔ اس طرح جنگ میں مقاتل کو قتل نہ کرنا اور جنگ کے بعد اسیر کو قتل کر دینا دونوں جرم ہیں۔

و: قیدی کے بارے میں چار صورتیں ہیں۔ ان میں سے ایک صورت ممنوع ہے۔ باقی صورتوں میں امام کو اختیار ہے جس صورت کو چاہے اختیار کرے۔ وہ صورتیں یہ ہیں:قتل، فدیہ لے کر چھوڑنا، فدیہ کے بغیر چھوڑنا یا غلام بنانا۔ ان تین صورتوں میں سے ایک صورت امام کو اختیار کرنے کا حق ہے۔ قتل کرنا ممنوع ہے۔

۶۔ حَتّٰی تَضَعَ الۡحَرۡبُ اَوۡزَارَہَا: اس جملے کا تعلق فَضَرْبَ الرِّقَابِ سے معلوم ہوتا ہے۔ ترتیب کلام اس طرح ہے: دشمن کی گردنیں مارو لڑائی تھم جانے تک۔ جب تم دشمن کو کچل چکو تو قیدی بنا لو۔ اس کے بعد احسان رکھ کر یا فدیہ لے کر چھوڑ دو۔

چنانچہ ائمہ اہل البیت علیہم السلام سے روایت ہے:

اگر لڑائی کے دوران کسی کو پکڑ لیا جائے تو اسے قتل کیا جائے گا اور اگر لڑائی تھم جانے کے بعد پکڑ لیا گیاہے تو امام کو اختیار ہے فدیہ لے کر چھوڑ دیں، بغیر فدیہ کے چھوڑ دیں یا غلام بنائے۔

واضح رہے کہ سورہ محمدؐ، سورہ انفال سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ سورہ محمدؐ میں صاف لفظوں میں یہ حکم آگیا ہوا تھا کہ دشمن کو اچھی طرح سے شکست دینے سے پہلے قیدی نہ بناؤ۔ اس کے باوجود جنگ بدر میں کچھ لوگ لڑائی کے دوران مشرکوں کو قیدی بنانے میں مصروف ہو گئے۔ اس لیے سورہ انفال کی آیات ۲۷۔ ۶۹ میں حالت قتال میں قیدی بنانے پر سرزنش کی گئی ہے۔

۷۔ وَ لَوۡ یَشَآءُ اللّٰہُ لَانۡتَصَرَ مِنۡہُمۡ: اگر اللہ چاہتا تو ایک آفت کے ذریعے انہیں تباہ کر سکتا تھا لیکن اللہ انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں نابود کرنا چاہتا ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ کافروں کے ساتھ جنگ کے حکم سے لوگوں کے ایمان کا حال ظاہر ہو جاتا ہے کہ کون قلباً مؤمن ہے اور کون قلبی ایمان سے محروم ہے۔ چنانچہ مختلف جنگوں میں لوگوں کا ایمانی حال ظاہر ہوتا رہا۔

۸۔ وَ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ: راہ خدا میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے دیگر تمام اعمال قبول ہوں گے۔ ان کا کوئی عمل اکارت نہ ہو گا۔ بعض نیک اعمال ایسے ہیں جن کی بجاآوری سے خود عمل کے ثواب کے علاوہ دیگر اعمال پر بھی مثبت اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ شہادت ان میں سرفہرست ہے۔ چونکہ بعض عمل سے عمل کرنے والے میں خوبی بیشتر ہو جاتی ہے۔ عمل کرنے والے میں خوبی بڑھنے سے اس کے تمام اعمال کی خوبی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

۹۔ سَیَہۡدِیۡہِمۡ وَ یُصۡلِحُ بَالَہُمۡ: ان شہیدوں کی جنت کی طرف رہنمائی کی جائے گی اور آخرت میں ان کے حال بہتر ہوں گے۔ آخرت میں حالت کی بہتری میں بہت بڑی کامیابی ہے۔

۱۰۔ وَ یُدۡخِلُہُمُ الۡجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمۡ: جس جنت کی انہیں پہلے سے خوشخبری دے دی گئی ہو گی اس میں انہیں داخل کیا جائے گا۔

فضائل: ابن عباس روایت کرتے ہیں:

وَ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ۔ ھم و اللہ حمزۃ بن عبد المطلب سید الشھداء و جعفر الطیار۔ ( شواہد التنزیل ذیل آیت)

راہ خدا میں قتل ہونے والوں سے مراد قسم بخدا حمزہ بن عبد المطلب، سید الشہداء اور جعفر طیار ہیں۔

غلامی اور اسلام: سوال کیا جاتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ انسانی حقوق کا علمدار اسلام جو ایک خراش کے لیے بھی تاوان مقرر کرتا اور احترام آدمیت کے بارے میں کامل ترین قوانین رکھتا ہے، پیٹھ پیچھے کسی عیب کے ذکر اور سائل کو جھڑکی تک دینے کی اجازت نہیں دیتا، احسان کر کے جتانا ایک قسم کی اذیت ہے لہٰذا احسان جتانے کی اجازت نہیں دیتا:

قَوۡلٌ مَّعۡرُوۡفٌ وَّ مَغۡفِرَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ صَدَقَۃٍ یَّتۡبَعُہَاۤ اَذًی۔۔۔۔۔ (۲ بقرہ:۲۶۳)

نرم کلامی اور درگزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد (خیرات لینے والے کو) ایذا دی جائے جائے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالۡمَنِّ وَ الۡاَذٰی۔۔۔ (۲ بقرہ:۲۶۴)

اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو۔

اس اسلام نے کسی طرح ایک انسان کو ایک مال کی طرح کسی اور انسان کی ملکیت میں دینا قبول کیا؟ کیا انسان کو مال قرار دینا خود انسان کی اہانت نہیں ہے؟

کیا مغربی دنیا نے انسانی قدروں کو مسلمانوں سے پہلے پہچان لیا اور ۱۸۹۰ء میں بروکسل کانفرنس میں انسان کو غلام بنانا ممنوع قرار دیا؟

جواب یہ ہے کہ اسلام آزاد انسان کی غلامی کو سرے قبول نہیں کرتا۔ اسلامی دستور میں یہ بات پوری وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ آزاد انسان کو کسی صورت میں غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ صرف ایک صورت ہے جس کی تین صورتوں میں سے ایک صورت میں غلام بنایا جا سکتا ہے۔ آزاد انسان کو نہیں، حملہ آور کو۔ جسے فقہی اصطلاح میں کافر حربی کہتے ہیں۔ وہ بھی ہر جگہ سے نہیں، صرف میدان جنگ سے پکڑا گیا ہو یعنی جنگی قیدی کو صرف ایک صورت میں غلام بنایا جاتا ہے۔ وہ صورت یہ ہے:

جب حملہ آور کافروں کو میدان جنگ میں پکڑ لیا جاتا ہے تو اسلامی سربراہ (امام) کو اختیار ہے کہ وہ ان جنگی قیدیوں کے ساتھ تین صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کریں۔ ایک یہ کہ انہیں فدیہ کے مقابلے میں آزاد کیا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ فدیے کے بغیر آزاد کیا جائے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ انہیں غلام بنایا جائے۔

چونکہ جنگی قیدی کا قتل جائز نہیں ہے۔ معاوضہ اور بلا معاوضہ آزاد کرنا حربی تقاضوں کے خلاف ہے تو ان قیدیوں کو زندان میں بند رکھنے کا بھی اسلامی قانون میں رواج نہیں ہے۔ لہٰذا ان قیدیوں کو محفوظ رکھنے کی ایک صورت یہ ہے کہ انہیں دیگر انسانوں کے اختیار میں دیا جائے یعنی غلام بنایا جائے۔ چونکہ کافر لوگ نے تو مسلمان قیدیوں کو غلام بنانا ہے، مسلمانوں کے لیے ممکن نہیں ہے کہ انہیں غلام نہ بنائیں۔

اسلام نے آزاد انسان کو غلام بنانے کی دیگر تمام صورتوں کو ممنوع قرار دیا ہے جب کہ غیر اسلامی معاشروں میں طاقت کے بل بوتے پر آزاد پرامن لوگوں کو غلام بنانے کا رواج عام تھا۔ چنانچہ طاقتور حکومتیں، افریقی ممالک پر حملہ کر کے ہزاروں افراد کو قیدی بنا کر لاتیں اور ایشیا اور یورپ کے بازاروں میں فروخت کر دیتیں۔

مغربی دنیا نے آزاد پرامن لوگوں کو غلام بنانے کی اس وحشیانہ صورت کو سنہ ۱۸۹۰ء میں ممنوع قرار دیا ہے جب کہ اسلام نے روز اول سے اس صورت کو قبول نہیں کیا ہے۔ یعنی آزاد پرُامن انسان کو غلام بنانا اسلام میں ہرگز جائز نہیں ہے۔ لہٰذا اسلام صرف اس حملہ آور کافر کو جو میدان جنگ میں پکڑا گیا ہے اس صورت میں غلام بناتا ہے کہ نہ اسے معاوضہ کے ساتھ آزاد کیا جا سکتا ہے، نہ بلا معاوضہ۔ حربی اعتبار سے کوئی قانون اجازت نہیں دیتا کہ دشمن کو اس کی طاقت واپس کی جائے۔ اگر حالات اجازت دیں تو امام اس شخص کو معاوضہ کے ساتھ یا بلا معاوضہ آزاد کر سکتے ہیں۔

اسلامی قانون کے مطابق میدان جنگ میں کوئی کافر حالت کفر میں قیدی ہو جائے، وہ غلام ہو سکتا ہے۔ قید میں آنے کے بعد اگر وہ اسلام قبول کر لے تو بھی وہ غلام رہتا ہے۔ اگر کلمہ کہنے سے آزاد ہونا ہوتا تو کلمہ پڑھ کر آزادی حاصل نہ کرنے والا کوئی نہ ہوتا لہٰذا اگر کوئی کافر قیدی بنانے سے پہلے اسلام قبول کرتا ہے تو وہ غلام نہیں بن سکتا۔ اگر قیدی ہونے کے بعد اسلام قبول کرے تو بھی وہ غلام رہتا ہے۔

اسلامی قوانین میں غلام کو وہ تمام انسانی حقوق حاصل ہیں جو دیگر انسانوں کو حاصل ہیں۔ حدیث نبوی ہے:

اَلْبِسُوھُمْ مِمَّا تَلْبَسُونَ وَ اَطْعِمُوھُمْ مِمَّا تَاکُلُونِ۔ ( مستدرک الوسائل ۳: ۲۵۶)

جو تم پہنتے ہو وہ انہیں پہناؤ۔ جو تم کھاتے ہو وہ انہیں کھلاؤ۔

غلام آزاد کرنے کی ترغیب:

اس حربی ضرورت کے تحت غلامی میں آنے کے بعد اسلام نے غلاموں کو آزاد کرنے کے لیے اپنے دستور میں متعدد مواقع فراہم کیے ہیں:

i۔ غلام اگر اذیت میں ہے تو بیت المال سے اس کی قیمت ادا کر کے اس کو آزاد کرنا اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے۔

ii۔ خود غلام اپنے مالک کے ساتھ معاملہ کر سکتا ہے کہ ایک معین رقم کی ادائیگی پر اسے آزادی مل جائے۔ اس کو مکاتبہ کہتے ہیں۔

iii۔ ایک غلام میں دو افراد شریک ہیں۔ ایک نے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو اس پر واجب ہے اپنے شریک کا حصہ بھی خرید کر پورا غلام آزاد کرے۔

iv۔ اگر مالک اپنی کنیز کے ساتھ شادی کرے اور اولاد پیدا ہو جائے تو اس کنیز کا فروخت کرنا جائز نہیں ہے اور وہ اپنی اولاد کے حصۂ میراث میں آ کر آزاد ہو جائے گی۔

v۔ مالک اگر اپنے غلام پر ناقابل تحمل تشدد کرتا ہے تو یہ غلام از خود آزاد ہو جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام انسان کو اس معنی میں غلام نہیں بناتا جس معنی میں باقی دنیا انسان کو غلام بناتی ہے۔

vi۔ اسلامی فقہی ابواب میں ایسے بہت موارد ہیں جہاں کفارے اور دیگر صورتوں میں غلام آزاد کرنا لازمی ہے۔

vii۔ اگر کوئی شخص اپنے باپ، ماں، داداؤں، بیٹے، چچا، پھوپھی، ماموں، بھائی، بہن، بھتیجا، بھانجی کا مالک بن جائے تو یہ سب فوراً آزاد ہو جاتے ہیں۔


آیات 4 - 6