آیت 10
 

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ وَ کَفَرۡتُمۡ بِہٖ وَ شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَلٰی مِثۡلِہٖ فَاٰمَنَ وَ اسۡتَکۡبَرۡتُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ کہدیجئے: مجھے بتاؤ اگر یہ (قرآن) اللہ کی طرف سے ہو اور تم نے اس سے انکار کیا ہو جب کہ بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس جیسی کتاب پر گواہی دے چکا ہے اور پھر وہ ایمان بھی لا چکا ہو اور تم نے تکبر کیا ہو (تو تمہارا کیا بنے گا؟) بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ: کہدیجیے یہ تو بتاؤ تمہارا کیا حال ہو گا اگر فی الواقع یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہونے کے باوجود تم نے انکار کیا ہے۔

۲۔ وَ شَہِدَ شَاہِدٌ: اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس قرآن کی ہم مضمون کتاب (توریت) کے مندرجات کی گواہی دینے کے بعد اس قرآن پر ایمان لے آیا۔

۳۔ عَلٰی مِثۡلِہٖ: سے مراد مثل قرآن ہے۔ یعنی توریت۔ چونکہ غیر محرف توریت، تصور توحید، رسالت، آخرت اور احکام میں قرآن کی مانند مضامین کی حامل ہے لہٰذا حقیقی توریت پر ایمان لانے والا قرآن پر بھی ایمان لے آئے گا۔

ممکن ہے توریت کا شاہد، قرآن کا مومن اس لحاظ سے بنے گا چونکہ توریت میں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی باوصافہ خبر دی گئی ہے:

اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ۔۔۔ (۷ اعراف: ۱۵۷)

جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔

اکثر مفسرین نے اس روایت کو اختیار کیا ہے کہ شَہِدَ شَاہِدٌ سے مراد یہودی عالم عبد اللہ بن سلام ہیں جنہوں نے قرآن کو توریت کے مطابق پا کر اسلام قبول کیا۔

عبد اللّٰہ بن سلام نے مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال سے دو سال قبل اسلام قبول کیا۔ مفسرین نے اس بارے میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ سورہ احقاف مکی ہونے اور اس آیت کے مدنی ہونے میں کوئی منافات نہیں ہے۔ قرآن میں ایسے نظائر زیادہ ہیں کہ سورہ مکی ہو اور آیت مدنی ہو۔

اس کے باوجود بعض حضرات کو آیۂ مودت کے مدنی ہونے میں تامل ہے۔


آیت 10