آیت 4
 

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ مَّا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقُوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ اَمۡ لَہُمۡ شِرۡکٌ فِی السَّمٰوٰتِ ؕ اِیۡتُوۡنِیۡ بِکِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ ہٰذَاۤ اَوۡ اَثٰرَۃٍ مِّنۡ عِلۡمٍ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۴﴾

۴۔ کہدیجئے: مجھے بتاؤ جنہیں اللہ کے سوا تم پکارتے ہو، مجھے بھی دکھاؤ انہوں نے زمین کی کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں میں ان کی شرکت ہے؟ اگر تم سچے ہو تو اس سے پہلے کی کوئی کتاب یا کوئی باقی ماندہ علمی (ثبوت) میرے سامنے پیش کرو۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ: یہ ترکیب ہمیشہ اخبرونی کے معنوں میں ہے۔ یعنی مجھے بتاؤ۔

۲۔ اَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقُوۡا: یہ بات ذہن میں رہے کہ کائنات خلق کرنے (تخلیق) اور چلانے (تدبیر) کے دو الگ الگ سرچشمے نہیں ہو سکتے کہ ایک ہستی خلق کرے اور دوسری ہستی تدبیر کرے۔ قرآن نے بڑی شد و مد، تکرار اور پوری وضاحت کے ساتھ اس بات کو بیان کیا ہے کہ جس نے کائنات کو خلق کیا ہے وہی اس کی تدبیر کر سکتا ہے، چلا سکتا ہے۔

مشرکین جن ہستیوں اور بتوں کی طرف تدبیر کائنات کی نسبت دیتے تھے، ان سے یہ کہا جا رہا ہے: پھر ان کی طرف سے خلق بھی ہونا چاہیے۔ مشرکین خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ خلق کا کام صرف اللہ کر سکتا ہے:

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ (۲۹ عنکبوت:۶۱)

اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیداکیا اور سور ج اور چاند کو کس نے مسخر کیا تو ضرورکہیں گے: اللہ نے، تو پھر یہ کہاں الٹے جا رہے ہیں؟

اگر ایسا ہے کہ تخلیق میں بھی کسی غیر اللہ کا کردار ہے تو فرمایا: اَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقُوۡا مجھے دکھاؤ زمین میں انہوں نے کیا خلق کیا ہے یا آسمان کی تخلیق میں ان کا کیا حصہ ہے۔ اس کے اثبات کے لیے دو علمی مصادر کا ذکر فرمایا:

۳۔ اِیۡتُوۡنِیۡ بِکِتٰبٍ: ایک علمی مصدر کتاب ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ جیسے توریت اور انجیل، ان میں کسی غیر اللہ کی پرستش یا ان کے خالق ہونے کا ذکر ملتا ہو تو پیش کرو۔ چنانچہ وہ وحی اور رسالت کے قائل نہیں ہیں۔

۴۔ اَوۡ اَثٰرَۃٍ مِّنۡ عِلۡمٍ: دوسرا مصدر وہ منقول وما ثور علم ہے جو مصادر وحی سے مربوط ہو جسے اسلامی اصطلاح میں سنت کہتے ہیں۔ چنانچہ اسلام میں علمی مصادر انہی دو مصادر میں منحصر ہیں۔ کتاب اور سنت اور سنت کی سند عترت ہے۔

چنانچہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے:

و اَثَارَۃٍ مِنْ عِلْمٍ فَاِنَّمَا عَنَی بِذَلِکَ عِلْمَ اَوْصِیَائِ الْاَنْبِیَائِ۔ (الکافی ۱: ۴۲۶)

اور اَثٰرَۃٍ مِّنۡ عِلۡمٍ سے انبیاء کے اوصیاء کا علم مراد لیا گیا ہے۔

اس آیت سے ضمناً یہ بات واضح ہو گئی تمام ادیان میں دینی مآخذ و مصادر دو ہیں: کتاب اور جس نبی پر کتاب نازل ہوئی ہے اس سے منقول سنت۔ مشرکین، رسالت قبول نہیں کرتے۔ جب ان دونوں مصادر کو تم مانتے نہیں ہو تو تمہیں کس نے بتایا کہ اللہ کے ساتھ کوئی شریک ہے؟ جواب میں وہ یہی کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔


آیت 4