آیت 10
 

وَ جَعَلَ فِیۡہَا رَوَاسِیَ مِنۡ فَوۡقِہَا وَ بٰرَکَ فِیۡہَا وَ قَدَّرَ فِیۡہَاۤ اَقۡوَاتَہَا فِیۡۤ اَرۡبَعَۃِ اَیَّامٍ ؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِیۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور اس میں برکات رکھ دیں اور اس میں چار دنوں میں حاجتمندوں کی ضروریات کے برابر سامان خوراک مقرر کیا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ جَعَلَ فِیۡہَا رَوَاسِیَ مِنۡ فَوۡقِہَا: اللہ تعالیٰ نے زمین کے اوپر پہاڑ بنا دیے۔ جس سے اس زمین میں ٹھہراؤ آ گیا۔ اس کا اندرونی حصہ مائع اور سیال صورت میں ہے اور زمین کی سطح جامد صورت میں ہے۔ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو حرکت زمین کی وجہ سے اس کی بیرونی سطح ڈول جاتی۔ اس طرح پہاڑوں نے زمین کو ڈولنے سے محفوظ رکھا ہے۔

۲۔ وَ بٰرَکَ فِیۡہَا: اور اس میں برکتیں رکھ دیں۔ ایک مہربان ماں کی مانند، آرام دہ گہوارے کی طرح بنا دیا جس میں نہ صرف انسانی زندگی برقرار رکھنے کے لیے ضرورت کی چیزیں فراہم ہیں بلکہ انسانی مختلف اذواق کی تسکین کا سامان بھی ہے۔ ایک فیاض خاک خلق فرمائی۔ اس کے ساتھ لطیف ہوا اور سیال پانی خلق فرما کر ان پر سورج کی حرارت ڈال دی جس نے پانی کو ہوا میں اٹھایا۔ بارشیں بنائیں، نہریں، چشمے جاری کیے۔ اسی حرارت نے پانی اور ہوا کے ساتھ مل کر زمین کو نمو کی طاقت بخشی۔ ان سب نے مل کر کرۂ ارض کو پرُبرکت بنا دیا۔

۳۔ وَ قَدَّرَ فِیۡہَاۤ اَقۡوَاتَہَا: اس کرۂ ارض کے باشندوں کے لیے روزی کی تقدیر سازی کی۔ اہل زمین کی معیشت کے لیے ضروری چیزوں کی حدود و قیود کا تعین فرمایا۔ ان چیزوں کی خاصیت اور فعالیت مقرر فرمائی۔ یہ تکوین و تخلیق کے مراحل کی بات ہے۔

۴۔ فِیۡۤ اَرۡبَعَۃِ اَیَّامٍ: پہاڑوں کی تشکیل، زمین بابرکت بنانے اور اہل ارض کے لیے روزی اور معیشت فراہم کرنے میں چار دن لگے۔ بعض بزرگ مفسرین کے نزدیک ان چار دنوں سے مراد سال کے چار موسم ہیں جو زمین کی موجودہ شکل میں آنے کے بعد وجود میں آئے ہیں۔ اس نظریے کے تحت ان آیات میں کائنات کی تخلیق کے بارے میں چار دنوں کا ذکر ہے۔ باقی دو دنوں کا ذکر نہیں ہے اور ما بینہما کا بھی ذکر نہیں ہے۔

ایک نظریہ یہ ہے کہ زمین کی تخلیق پر دو دن لگ گئے اور زمین کو قابل سکونت بنانے پر بھی دو ہی دن لگے ہیں۔ مجموعاً چار دن ہو گئے۔ اس نظریے کے مطابق ان دونوں آیتوں کا مفہوم اس طرح بنتا ہے:

تم اس اللہ کے منکر ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی۔ اس کے اوپر پہاڑ بنائے۔ اس میں برکتیں رکھ دیں اور سامان معیشت فراہم فرمایا چار دنوں میں۔

ان چار دنوں میں وہ دو دن بھی شامل ہیں جس کا ذکر زمین بنانے کے بارے میں ہوا ہے۔

۵۔ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِیۡنَ: زمین کے باشندوں کو ان کی ضرورت کے مطابق روزی فراہم فرمائی۔ قرآنی تعبیر کا لفظی ترجمہ ہے: سوال کرنے والوں کے مطابق۔ سوال سے مراد ان کی احتیاج کی زباں حال ہے نیز سوال میں صرف ضروری اور لازمی چیزیں ہی نہیں ہیں۔ یہ انسان مَن و سلوی کے باوجود مسور اور پیاز اور اپنے ذوق کی تسکین کے لیے مختلف لذتوں کی چیزوں کا سوال کرتا ہے۔ یہ سب اللہ نے فراہم فرمائی ہیں۔


آیت 10