آیات 13 - 14
 

تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ﴿۱۳﴾

۱۳۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ﴿٪۱۴﴾

۱۴۔اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کی حدود سے تجاوز کرتا ہے اللہ اسے داخل جہنم کرے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلت آمیز سزا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ: یہ احکام وہ حد فاصل ہیں جنہیں قبول کرنے اور ان پر عمل کرنے سے انسان فوز عظیم کی منزل پر فائز ہو جاتا ہے اور ان حدود کو توڑنے کی جسارت کرنے والا اللہ کے خلاف کھلی بغاوت کرنے والوں کی طرح ہوتا ہے۔ حدود توڑنے کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ کی طرف سے مقررشدہ قانون وارثت کو تبدیل کر کے کسی اور قانون پر عمل کرنا، جو اللہ کے قانون کی توہین ہے۔ مثلاً اہل مغرب کی تقلید میں اسلامی قانون وراثت کی جگہ ان کے قانون کو اپنانا حدود اللہ سے بغاوت ہے، جو انکار شریعت کے مترادف ہے۔ جس کی وجہ سے عذاب الٰہی کا مستحق بن جاتا ہے۔

۲۔ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ: یہاں حدود اللہ سے تجاوز کرنے والوں کو جہنم میں ہمیشہ رہنے کی سزا سنائی ہے۔ کلمہ گو اہل قبلہ اگر ناصبی نہیں ہے تو وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔ لہٰذا یہاں حدود اللہ سے تجاوز سے مراد وہ لوگ لینا ہو گا جو حدود اللہ کے منکر ہیں۔ انکار سے وہ کافر ہو جاتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ حدود اللہ کی پاسداری ہی کا نام اطاعت ہے ۔

۲۔ قانون سازی میں دخل دینا ہی حدود اللہ کی خلاف ورزی ہے۔


آیات 13 - 14