آیت 4
 

وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحۡلَۃً ؕ فَاِنۡ طِبۡنَ لَکُمۡ عَنۡ شَیۡءٍ مِّنۡہُ نَفۡسًا فَکُلُوۡہُ ہَنِیۡٓــًٔا مَّرِیۡٓــًٔا﴿۴﴾

۴۔ اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دیا کرو، ہاں! اگر وہ کچھ حصہ اپنی خوشی سے معاف کر دیں تو اسے خوشگواری سے بلا کراہت کھا سکتے ہو۔

تشریح کلمات

صدقات:

( ص د ق ) حق مہر۔

نِحۡلَۃً:

( ن ح ل ) نِحل ۔ شہد کی مکھی۔ لہٰذا اس کے معنی میں شیرینی کا عنصر موجود ہے۔ اسی لیے عطیہ اور ہبہ کو نحلۃ کہا جاتا ہے اور جو چیز خوش دلی سے دی جائے، اسے بھی نِحلۃ کہتے ہیں۔

الھنییء:

( ھ ن ی ) بغیر مشقت جو چیز حاصل ہو جائے اور نتائج کے اعتبار سے بھی خوش کن ہو۔ یہ لفظ عام طور پر طعام کے بارے میں استعمال ہوتا ہے۔ ھنیی الطعام یعنی خوشگوار کھانا۔

المریء:

( م ر ی ) اس نالی کو کہتے ہیں جو معدے کے سرے سے حلق تک ملی ہوئی ہوتی ہے۔ اسی سے کھانا خوشگوار ہونے اور طبیعت کے موافق ہونے کو مَّرِیۡٓــًٔا کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

مہر کو قرآن نے صدقۃ کہا ہے۔ یعنی صدق و سچائی ۔ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یہ مال رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کو صادق اور سچا بنانے کے لیے ایک علامت ہے۔

ایام جاہلیت میں حق مہر خود عورتوں کو نہیں دیتے تھے، بلکہ دوسرے لوگ اسے وصول کرتے تھے۔ قرآن نے فرمایا : یہ عورتوں کا حق ہے، انہی کو دیا کرو۔ یعنی اسلام نے عورتوں کو اقتصادی امور میں استقلال دیا کہ عورت اپنے مال کی خود مالک ہے۔ مردوں کو اس میں دخل دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ مغرب نے بیسویں صدی میں داخل ہونے تک عورت کو اقتصادی امور میں استقلال نہیں دیا۔

نِحۡلَۃً: یعنی اس حق مہر کو مہر و محبت کا عنوان بنا کر از روئے ہدیہ و عطیہ نہایت خوشدلی سے دیا کرو۔

اعتراض: مہر کا تعین عورت کو خریدنے اوراس کی قیمت لگانے کے مترادف ہے اور یہ مقام زن کی توہین ہے۔

جواب:اولاً اوپر بیان کیا گیا کہ یہ عورت کی قیمت نہیں ہے۔ حق مہر کے ذریعے عورت خریدی نہیں جاتی بلکہ یہ خواستگاری کی صداقت اور باہمی رشتہ ازدواج میں عورت کی عفت کا اعتراف ہے۔ مہر سے عورت کی شخصیت کو اہمیت مل جاتی ہے۔ جس میں مادی سے زیادہ انسانی اور نسوانی اقدار کا پہلو زیادہ اہم ہے۔ مہر ادا کرنے کی وجہ سے مرد، عورت یا اس کے کسی عمل کا مالک نہیں بنتا۔ اگر عورت کمائی کرے تو اس کی مالک خود عورت ہے۔ مہر ادا کرنے کی وجہ سے مرد عورت سے کام نہیں لے سکتا۔ عورت ازدواجی حقوق کے علاوہ مرد کے کسی کام کاج کی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ وہ ایک مستقل انسان ہے اور مرد کے مقابلے میں زوج، جفت کا مقام رکھتی ہے۔ نہ محکوم ہے نہ خادمہ۔

درحقیقت مرد و زن میں ایک توازن برقرار رکھنے کے لیے قدرت نے مختلف خصوصیات ان دونوں میں ودیعت فرمائی ہیں۔ اگر مرد، اعصاب و بدن کے اعتبار سے عورت سے زیادہ طاقتور ہے تو بے نیازی، جمال اور غرور میں عورت زیادہ طاقتور ہے۔ اسی لیے خواستگاری ہمیشہ مرد کی طرف سے ہوتی ہے اور یہ تقریباً ایک کائناتی اور آفاقی دستور ہے کہ مادہ نر کو اپنی طرف جذب کرتی ہے اور نر مادہ کے پیچھے جاتا ہے۔ مادہ کے لیے عار و ننگ ہے کہ وہ نر کے پیچھے جائے۔ مہر بھی اسی سے ہے کہ نر بعنوان ہدیہ و خواستگاری مہر دیتا ہے۔ عورت کے لیے ننگ ہے کہ وہ اس سلسلے میں مرد کو کچھ دے۔ عورت کا وقار، اس کی شخصیت اور اس کے ناموس کی عزت و احترام اسی میں ہے کہ وہ مفت اپنے آپ کو مرد کے حوالے نہ کرے۔ اس سلسلے میں مرد کو اپنی خواہش اور خواستگاری کا ثبوت فراہم کرنا ہو گا اور وہ ہے مہرکی ادائیگی۔

اہم نکات

۱۔حق مہر ازدواجی زندگی میں مہر و محبت، عورت کی شخصیت و وقار اور احترام کا ثبوت ہے۔

۲۔اسلام نہ مرد کو ظلم کا حق دیتا ہے، نہ عورت کو، بلکہ حق کو بالادستی حاصل ہوتی ہے۔


آیت 4