آیات 1 - 4
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الصافات

اس سورۃ کا نام اس کی ابتدا میں مذکور الصّٰٓفّٰتِ سے ماخوذ ہے۔

یہ مکمل سورۃ مکہ میں نازل ہوئی اس کی آیات کی تعداد ایک سو اکاسی ہے (۱۸۱) ہے۔ اس سورۃ المبارکہ کا اسلوب کلام اس طرح ہے کہ آیات مختصر ہیں۔ جس سے مکی زندگی میں لوگوں کے لیے حفظ کرنے میں آسانی ہوتی اور اسلوب میں معجزانہ لہجہ باقی سورہ ہائے قرآن کی بہ نسبت زیادہ نمایاں ہے۔ مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشرکین کی مخالفت، طعنے اور استہزاء عروج پر تھا۔ اسی مناسبت سے ان باتوں کی رد بھی پوری قوت سے ہو رہی ہے۔

اس سورہ مبارکہ میں خاص طور پر معجزہ یہ ہے کہ اس کی آیات ۱۷۱ تا ۱۷۳ میں فرمایا:

وَ لَقَدۡ سَبَقَتۡ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِنَّہُمۡ لَہُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ وَ اِنَّ جُنۡدَنَا لَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ

اور بتحقیق ہمارے بندگان مرسل سے ہمارا یہ وعدہ ہو چکا ہے۔ یقینا وہ مدد کیے جانے والے ہیں، اور یقینا ہمارا لشکر ہی غالب آ کر رہے گا۔

آیات میں یہ پیشگوئی ایسے حالات میں ہو رہی ہے کہ کامیابی کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی۔ مٹھی بھر مسلمان نہایت بے سروسامانی میں مشرکین کے طعنے سن رہے تھے۔ ممکن ہے اس وقت مکے میں چالیس سے پچاس تک مسلمانوں کی نہایت بے بسی کی حالت میں قرآن یہ اعلان فرما رہا ہے: وَ اِنَّ جُنۡدَنَا لَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ۔ یقینا ہمارا لشکر ہی غالب آ کر رہے گا۔ اس آیت کے نزول کے وقت کوئی لشکر موجود نہ تھا۔ چند بے بس لوگ تھے۔

مشرکین کہتے تھے: وہ عذاب جس سے ہمیں ڈراتے ہو کب آئے گا؟ جواب میں آیت ۱۷۷ میں ارشاد فرمایا:

فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِہِمۡ فَسَآءَ صَبَاحُ الۡمُنۡذَرِیۡنَ﴿۱۷۷﴾ پس جب یہ (عذاب) ان کے دالان میں اترے گا تو تنبیہ شدگان کی صبح بہت بری ہو گی۔

چنانچہ چشم فلک نے دیکھ لیا دس ہزار پر مشتمل لشکر نے فتح مکہ کے موقع پر ان کے گھروں کے دالان میں ذلت و رسوائی اور ننگ و عار اتار دیا ہے اور عمر بھر رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کرنے والے بظاہر حکم اسلام زبان پر جاری کر کے اپنی جان بچانے پر مجبور ہو گئے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّا ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم ہے پوری طرح صف باندھنے والوں کی،

فَالزّٰجِرٰتِ زَجۡرًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ پھر بطور کامل جھڑکی دینے والوں کی،

فَالتّٰلِیٰتِ ذِکۡرًا ۙ﴿۳﴾

۳۔ پھر ذکر کی تلاوت کرنے والوں کی،

اِنَّ اِلٰـہَکُمۡ لَوَاحِدٌ ﴿ؕ۴﴾

۴۔ یقینا تمہارا معبود ایک ہی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّا: یہ قرآن کا پہلا سورہ ہے جس کی ابتدا قسم سے ہو رہی ہے۔ قسم ہے فرشتوں کی اس جماعت کی جو صف بستہ عبادت میں کھڑی ہے۔ چنانچہ فرشتے خود اپنے بارے میں کہتے ہیں:

وَّ اِنَّا لَنَحۡنُ الصَّآفُّوۡنَ﴿۱۶۵﴾ (۳۷ صافات:۱۶۵)

اور ہم ہی صف بستہ رہتے ہیں۔

وَ صَافّونَ لَا یَتَزَایَلُونَ۔۔۔۔ (نہج البلاغہ: خطبہ اول)

وہ صف بستہ ہوتے ہیں اور صفیں چھوڑتے نہیں ہیں۔

فرشتے اللہ کی اطاعت میں ہمیشہ صف بستہ کھڑے رہتے ہیں چونکہ اوامر الٰہی کا نفاذ فرشتوں کے ذریعے ہوتاہے۔

۲۔ فَالزّٰجِرٰتِ زَجۡرًا: قسم ہے فرشتوں کی اس جماعت کی جو سختی سے جھڑکی دینے والی ہے۔ شیطانوں کو بھگانے والی یا انسان کو تحفظ فراہم کر نے کے لیے ہر قسم کے خطرات کو دور کرنے والی جماعت:

یُرۡسِلُ عَلَیۡکُمۡ حَفَظَۃً۔۔۔۔ (۶ انعام:۶۱)

اور تم پر نگہبانی کرنے والے بھیجتا ہے۔

اِنۡ کُلُّ نَفۡسٍ لَّمَّا عَلَیۡہَا حَافِظٌ ﴿۴﴾ (۸۶ طارق: ۴)

کوئی نفس ایسا نہیں جس پر نگہبان نہ ہو۔

یہ فرشتے شیطان کی گمراہی اور اللہ کی نا فرمانی سے بچاتے ہیں۔

۳۔ فَالتّٰلِیٰتِ ذِکۡرًا: فرشتوں کی اس جماعت کی قسم جو ذکر کی تلاوت کرتے ہیں۔ ایک تفسیر کے مطابق وہ فرشتے جووحی الٰہی لے کر نازل ہوتے اور رسولوں کے لیے تلاوت کرتے ہیں۔

۴۔ اِنَّ اِلٰـہَکُمۡ لَوَاحِدٌ: تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ عالم بالا، عالم ارضی اور ان دونوں کے درمیان قائم نظام صرف اور صرف ایک ہی معبود کی نشاندہی کرتا ہے۔


آیات 1 - 4