آیت 56
 

ہُمۡ وَ اَزۡوَاجُہُمۡ فِیۡ ظِلٰلٍ عَلَی الۡاَرَآئِکِ مُتَّکِـُٔوۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ وہ اور ان کی ازواج سایوں میں مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ ہُمۡ وَ اَزۡوَاجُہُمۡ: ازواج سے مراد ممکن ہے وہ ازواج ہوں جو جنت میں حورالعین کی شکل میں ان کے ساتھ ہوں گی اور دنیا میں جو ازواج ہوں گی ان کا ان کے ساتھ جنت میں ہونا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ نوح اور لوط علیہما السلام کی بیویوں کے بارے میں قرآن میں صراحت سے فرمایا:

کَانَتَا تَحۡتَ عَبۡدَیۡنِ مِنۡ عِبَادِنَا صَالِحَیۡنِ فَخَانَتٰہُمَا۔۔۔۔ (۶۶ تحریم: ۱۰)

یہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں مگر ان دونوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی۔

۲۔ فِیۡ ظِلٰلٍ: یہ اپنی ازواج کے ساتھ زیر سایہ ہوں گے۔ سایہ سے یہ مراد ہو سکتا ہے کہ وہ کسی قسم کی گرمی میں نہیں ہوں گے۔ سایہ سے مراد ہماری دنیا والا سایہ نہیں ہو سکتا چونکہ جنت میں دھوپ کی تپش نہ ہوگی کہ سایہ کی ضرورت پڑے:

لَا یَرَوۡنَ فِیۡہَا شَمۡسًا وَّ لَا زَمۡہَرِیۡرًا ﴿۱۳﴾ (۷۶ انسان: ۱۳)

جس میں نہ دھوپ کی گرمی دیکھنے کا اتفاق ہو گا اور نہ سردی کی شدت۔

۳۔ عَلَی الۡاَرَآئِکِ مُتَّکِـُٔوۡنَ: مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھنا جنت کی آسائش کی طرف ایک ایسا اشارہ ہے جو ہمارے لیے قابل فہم ہے ورنہ جنت کی زندگی کا دنیاوی آسائش کے ساتھ موازنہ نہیں ہو سکتا۔


آیت 56