آیت 52
 

قَالُوۡا یٰوَیۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَا ٜۘؐ ہٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ وَ صَدَقَ الۡمُرۡسَلُوۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔ کہیں گے: ہائے ہماری تباہی! ہماری خوابگاہوں سے ہمیں کس نے اٹھایا؟ یہ وہی بات ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ کہا تھا۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالُوۡا یٰوَیۡلَنَا: ویل تباہی اور رسوائی کے معنوں میں ہے۔ جب منکرین قیامت قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو اس دن کو اپنے سامنے دیکھ لیں گے جسے دنیا میں جھٹلاتے رہے ہیں اور بے ساختہ کہہ اٹھیں گے: یٰوَیۡلَنَا ہائے ہماری رسوائی۔

۲۔ مَنۡۢ بَعَثَنَا: ہمیں کس نے اٹھایا؟ مارے دہشت کے زندہ ہونے کے بعد ابتدائی لمحوں میں یہ سوال ذہنوں میں آئے گا کہ ہمیں کس نے قبروں سے اٹھایا ہے؟

۳۔ مِنۡ مَّرۡقَدِنَا: ہماری خوابگاہوں سے ہمیں کس نے اٹھایا؟ ممکن ہے قیامت کی ہولناک صورت حال کے مقابلے میں قبر کو خوابگاہ سے تعبیر کیا گیا ہو کیونکہ کافر قبر، عالم برزخ میں بھی عذاب میں مبتلا ہوتا ہے۔ بعض کے بقول دونوں صور پھونکنے کے درمیانی وقفے میں یہ لوگ عالم خواب میں ہوں گے۔ بعض لوگوں کے لیے عالم برزخ میں نیند کی حالت طاری رہے گی۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

وَ مَا بَیْنَ الْمَوْتِ وَ الْبَعْثِ اِلَّا کَنُوْمَۃٍ نِمْتَھَا ثُمَّ اسْتَیْقَظْتَ مِنْھَا۔۔۔۔ (اصول الکافی ۲: ۱۳۴)

موت اور قیامت کی درمیانی مدت نیند کی مانند ہو گی جس کے بعد تو بیدار ہو جائے گا۔

حیات برزخی کی مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۃ المؤمنون آیت ۱۰۰۔

۴۔ ہٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ وَ صَدَقَ الۡمُرۡسَلُوۡنَ: ہمیں کس نے اٹھایا کے جواب میں فرشتے ان سے کہیں گے یا خود انہیں علم ہو جائے گا: یہ وہی دن ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ کیا تھا۔

یہ دن اللہ نے اپنے رحمتوں سے نوازنے کے لیے مقرر کیا تھا، اس لیے رحمن سے تعبیر کیا مگر کافروں نے اس رحمت کا انکار کر کے اپنے آپ کو اس سے دور کر لیا۔

اہم نکات

۱۔ قبروں سے اٹھنے کے لمحات کو فزع اکبر کہتے ہیں۔

۲۔ قیامت کی ہولناکی کے مقابلے میں برزخ کی زندگی خواب کی مانند لگے گی۔


آیت 52