آیت 51
 

وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَاِذَا ہُمۡ مِّنَ الۡاَجۡدَاثِ اِلٰی رَبِّہِمۡ یَنۡسِلُوۡنَ﴿۵۱﴾

۵۱۔ اور جب صور میں پھونک ماری جائے گی تو وہ اپنی قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑ پڑیں گے۔

تشریح کلمات

الۡاَجۡدَاثِ:

( ج د ث ) جدث کی جمع۔ قبر کے معنوں میں ہے۔

یَنۡسِلُوۡنَ:

( ن س ل ) نَسَلَ تیزی کے ساتھ دوڑنے کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ: یہ نفخۃ الثانیۃ دوسرا صور ہے۔ اس صور کے پھونکنے سے سب زندہ ہو جائیں گے۔ صور ایک آواز ہے جو تمام مردوں کے اعماق اور گہرائیوں میں سرایت کر جائے گی جس سے سب مردے بیدار ہو جائیں گے۔ جس طرح حضرت آدم علیہ السلام کے جسم میں روح پھونکنے کے لیے بھی یہی لفظ استعمال ہوا ہے:

فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ۔۔۔۔ (۱۵ حجر: ۲۹)

پھر جب میں اس کی تخلیق مکمل کر لوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں۔

لہٰذا نفخ ایجاد حیات کا ایک خالقانہ عمل ہے جس کی حقیقت سے انسان واقف نہیں ہے۔ البتہ سلب حیاۃ کے لیے بھی یہی لفظ استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا ایجاد حیات اور سلب حیات دونوں کے لیے ایک لفظ استعمال ہوا ہے۔ فرق ارادۂ الٰہی کا ہے۔ اس سے بیشتر اس کی حقیقت سے بشر آگاہ نہیں ہے۔

نفخہ اولیٰ اور نفخہ ثانیہ کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ ہو گا؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ تفسیر صافی کی ایک روایت میں تو یہ فاصلہ تصور سے بھی زیادہ بتایا گیا ہے۔

۲۔ فَاِذَا ہُمۡ مِّنَ الۡاَجۡدَاثِ اِلٰی رَبِّہِمۡ یَنۡسِلُوۡنَ: نفخ صور کے نتیجے میں جیسے ہی ان میں زندگی آجائے گی، اللہ کی بارگاہ میں حساب دینے اور اپنی ابدی قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے دوڑ پڑیں گے۔ یہ وہ لمحہ ہو گا جس میں اللہ کی حکومت سے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہو گا لہٰذا خود اللہ کی طرف بھاگنے پر مجبور ہوں گے۔ وَ لَا مُفَرِّمِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ۔ ( الفقیہ ۱: ۳۰۳ (حدیث) (اے اللہ) تجھ سے فرار کا کوئی راستہ نہیں مگر یہ کہ خود تیری طرف بھاگے۔

اہم نکات

۱۔ قبروں سے اٹھتے ہی اللہ کی طرف بھاگنا پڑے گا: اِلٰی رَبِّہِمۡ یَنۡسِلُوۡنَ۔

۲۔ مومن کو وہ دن یاد رکھنا چاہیے جس میں اللہ سے نہیں، اللہ کی طرف بھاگنا پڑے گا۔


آیت 51