آیات 26 - 27
 

قِیۡلَ ادۡخُلِ الۡجَنَّۃَ ؕ قَالَ یٰلَیۡتَ قَوۡمِیۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ اس سے کہدیا گیا: جنت میں داخل ہو جاؤ، اس نے کہا: کاش! میری قوم کو اس بات کا علم ہو جاتا،

بِمَا غَفَرَ لِیۡ رَبِّیۡ وَ جَعَلَنِیۡ مِنَ الۡمُکۡرَمِیۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں شامل کیا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قِیۡلَ ادۡخُلِ الۡجَنَّۃَ: سیاق آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے اس مومن کو شہید کر دیا اور شہید ہوتے ہی فرشتوں نے اسے جنت میں داخل ہونے کا حکم دے دیا۔ بظاہر یہ عالم برزخ کی جنت ہے، جیسے شہداء کے لیے برزخی حیات و رزق ہے:

بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ﴿۱۶۹﴾ (۳ آل عمران: ۱۶۹)

بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس سے رزق پا رہے ہیں۔

جیسے سورہ نحل میں فرمایا کہ قبض روح کے وقت جنت میں داخل ہونے کا حکم دیا جاتا ہے:

الَّذِیۡنَ تَتَوَفّٰىہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیۡنَ ۙ یَقُوۡلُوۡنَ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمُ ۙ ادۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۳۲﴾ (۱۶ نحل:۳۲)

جن کی روحیں فرشتے پاکیزہ حالت میں قبض کرتے ہیں (اور انہیں) کہتے ہیں: تم پر سلام ہو! اپنے (نیک) اعمال کی جزا میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔

۲۔ قَالَ یٰلَیۡتَ قَوۡمِیۡ یَعۡلَمُوۡنَ: وہ اپنی شہادت کے بعد جب داخل جنت ہوتے ہیں اور جنت کی نعمتوں کو دیکھ کر فوراً اپنی منکر قوم کے انجام بد کا خیال آتا ہے اور آرزو کرتے ہیں کہ کاش میری قوم کو علم ہوتا کہ حیات اخروی کی سعادت ان مرسلین کی باتوں پر ایمان لانے میں ہے۔

۳۔ بِمَا غَفَرَ لِیۡ رَبِّیۡ: شہادت کی وجہ سے گزشتہ تمام گناہوں کی مغفرت ہو گئی۔

۴۔ وَ جَعَلَنِیۡ مِنَ الۡمُکۡرَمِیۡنَ: کاش میری قوم کو اس بات کا بھی علم ہو جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے عزت و اکرام والوں میں شامل کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مکرمین کا لفظ اپنے مقرب فرشتوں کے لیے استعمال فرمایا ہے:

وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحۡمٰنُ وَلَدًا سُبۡحٰنَہٗ ؕ بَلۡ عِبَادٌ مُّکۡرَمُوۡنَ ﴿۲۶﴾ (۲۱ انبیاء: ۲۶)

اور وہ کہتے ہیں: اللہ نے بیٹا بنایا ہے، وہ پاک ہے (ایسی باتوں سے) بلکہ یہ تو اللہ کے محترم بندے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ شہادت اور جنت کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے: قِیۡلَ ادۡخُلِ الۡجَنَّۃَ۔۔۔۔

۲۔ مومن موت کے بعد زندوں کی فکر میں ہوتا ہے: یٰلَیۡتَ قَوۡمِیۡ یَعۡلَمُوۡنَ۔


آیات 26 - 27