آیت 10
 

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ جَمِیۡعًا ؕ اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یَمۡکُرُوۡنَ السَّیِّاٰتِ لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ؕ وَ مَکۡرُ اُولٰٓئِکَ ہُوَ یَبُوۡرُ﴿۱۰﴾

۱۰۔ جو شخص عزت کا خواہاں ہے تو (وہ جان لے کہ) عزت ساری اللہ کے لیے ہے ، پاکیزہ کلمات اسی کی طرف اوپر چلے جاتے ہیں اور نیک عمل اسے بلند کر دیتا ہے اور جو لوگ بری مکاریاں کرتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ایسے لوگوں کا مکر نابود ہو جائے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ جَمِیۡعًا: کفار قریش کے بڑوں کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات بن گئی تو ہماری عزت وقار خاک میں مل جائے گی۔ دیگر لوگوں کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آئے تو معاشرے میں ذلیل ہو جائیں گے۔

اس آیت میں فرمایا: پوری کی پوری عزت اللہ کی ہے۔ عزت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے: مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡعِزَّۃَ اگر کسی کو عزت چاہیے تو عزت کے سرچشمے سے ہی مل سکتی ہے۔ یہاں سے جو عزت ملے گی وہ حقیقی عزت ہو گی۔ دنیا و آخرت میں کبھی ذلت کا سامنا نہیں ہو گا۔

آج چشم جہاں دیکھ رہی ہے کہ جن ہستیوں نے شعب ابی طالب کے کربناک حالات میں وقت گزارا انہیں عزت حاصل ہے یا ان لوگوں کو عزت مل گئی جو اس وقت مکے میں دندناتے پھرتے تھے؟

۲۔ اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ: ان باتوں کا ذکر ہے جن سے عزت حاصل ہو سکتی ہے۔ پاکیزہ کلمات اللہ کی طرف صعود کرتے ہیں۔ روایات کے مطابق پاکیزہ سے مراد وہ کلمات ہیں جو برحق عقائد و نظریات کا اقرار کے لیے ادا کیے جاتے ہیں۔ جیسے کلمۂ توحید لا الہ اِلا اللہ اور اقرار برسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ولایت علی علیہ السلام کی گواہی دی جاتی ہے: علی ولی اللّٰہ و دیگر اصول و فروع کے اقرار پر مشتمل کلمات اللہ تعالیٰ کی طرف پرواز کرتے ہیں۔ صعود سے مراد اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں۔

۳۔ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ: اور عمل صالح کو یہ پاکیزہ کلمات قبولیت کے درجہ تک پہنچا دیتے ہیں۔ میرے نزدیک ترتیب کلام اس طرح ہے: و العمل الصالح یرفعہ الکلم الطیب۔ چونکہ اصول عقائد کے بغیر عمل قبول نہیں ہوتا۔ لہٰذا عمل صالح کو اللہ کی بارگاہ قبولیت پر فائز کرنے کے لیے اصول عقائد کی درستگی شرط ہے۔ جیسا کہ عمل کے بغیر عقائد بے نتیجہ ہیں کیونکہ ان عقائد کی کوئی قیمت نہیں جن کا کردار پر کوئی اثر نہ ہو۔

۴۔ وَ الَّذِیۡنَ یَمۡکُرُوۡنَ السَّیِّاٰتِ: جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف بری سازشیں کر رہے ہیں انہیں شدید عذاب کا سامنا کرنا ہو گا۔

۵۔ وَ مَکۡرُ اُولٰٓئِکَ ہُوَ یَبُوۡرُ: اور ساتھ ان کی مکاریاں بے اثر ہو جائیں گی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ان کی ساری سازشیں ناکام ہو گئیں جیسا کہ اس آیت میں میں فرمایا:

وَ اِذۡ یَمۡکُرُ بِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِیُثۡبِتُوۡکَ اَوۡ یَقۡتُلُوۡکَ اَوۡ یُخۡرِجُوۡکَ ؕ وَ یَمۡکُرُوۡنَ وَ یَمۡکُرُ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ﴿۳۰﴾ (۸ انفال: ۳۰)

اور (وہ وقت یاد کریں) جب یہ کفار آپ کے خلاف تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا آپ کو قتل کر دیں یا آپ کو نکال دیں وہ اپنی چال سوچ رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔

اہم نکات

۱۔ عزت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے: فَلِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ جَمِیۡعًا۔۔۔۔

۲۔ حقیقی عزت ایمان و عمل صالح میں ہے: وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ۔۔۔۔

۳۔ایمان اور عمل صالح میں ایک مضبوط رشتہ ہے: الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ۔۔۔۔


آیت 10