آیت 8
 

اَفَمَنۡ زُیِّنَ لَہٗ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا ؕ فَاِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۫ۖ فَلَا تَذۡہَبۡ نَفۡسُکَ عَلَیۡہِمۡ حَسَرٰتٍ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ بھلا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگا ہو (ہدایت یافتہ شخص کی طرح ہو سکتا ہے؟) بے شک اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے لہٰذا ان لوگوں پر افسوس میں آپ کی جان نہ چلی جائے، یہ جو کچھ کر رہے ہیں یقینا اللہ کو اس کا خوب علم ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَفَمَنۡ زُیِّنَ لَہٗ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ: کیا وہ شخص جس کی عقل پر خواہشات غالب آجائیں، اس کی نادانی دانائی پر چھا جائے کہ اس کی نگاہ میں قدریں بدل جائیں، برائی خوشنما بن جائے اور گناہوں کے ارتکاب پر فخر کرنا شروع کر دے، جرائم پر عمل کرنے میں لذت محسوس کرے، حق باطل اور باطل حق نظر آئے، اس طرح سب سے بڑے گناہ، احساس گناہ کے فقدان کا کوئی مرتکب ہو جائے تو کیا ایسا شخص ہدایت یافتہ شخص کی طرح ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔

۲۔ فَاِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ: اللہ ایسی قدروں کے مالک افراد کو ہدایت نہیں دیتا بلکہ انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ اللہ کی طرف سے ہدایت نہ ملنے کی صورت میں ضلالت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

۳۔ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ: اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے۔ اللہ کی چاہت اور مشیت اندھی بانٹ نہیں ہے۔ وہ اہل کو ہدایت دیتا ہے۔ نااہل کو جو ہدایت قبول نہیں کرتا، نہ ہدایت قبول کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، اس پر حجت پوری کرنے کے بعد جب وہ راہ راست پر نہیں آتا اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا اور ہدایت کا ہاتھ روک لیتا ہے۔ اس ہاتھ روکنے کو یُضِلُّ کے ساتھ تعبیر فرمایا ہے۔ ورنہ ابتداء میں اللہ بلاوجہ کسی کو گمراہی میں نہیں ڈالتا۔ گمراہی و ضلالت اللہ کی ناپسندیدہ ہے۔ خود اللہ ناپسندیدہ چیز اختیار نہیں کرتا۔

۴۔ فَلَا تَذۡہَبۡ نَفۡسُکَ عَلَیۡہِمۡ حَسَرٰتٍ: ان کی گمراہی پر اپنی جان گھلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان میں ہدایت کی اہلیت نہیں ہے ورنہ ان پر اللہ تعالیٰ آپؐ سے زیادہ مہربان ہے۔ اگرچہ ابدی سعادت کا موقع ہاتھ سے دینا بہت حسرت و افسوس ناک بات ہے تاہم یہ لوگ اپنے اختیار سے کفر پرقائم رہنے پر مصر ہیں تو ہم ان پر ہدایت جبراً مسلط نہیں کر سکتے۔ لہٰذا انہیں ان کے عمل کے ساتھ چھوڑ دینا پڑتا ہے۔

۵۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ: چونکہ اللہ کو ان کی کرتوتوں کا بخوبی علم ہے۔ اس علم کے مطابق اللہ ان کے ساتھ سلوک کرتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ سب سے بڑا گناہ، احساس گناہ کا نہ ہونا ہے۔

۲۔ ناقابل ہدایت کو اللہ اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہربان جان لوگوں کے گمراہ ہونے پر افسوس سے گھل جاتی ہے۔


آیت 8