آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ فاطر

نام سورۃ: اس سورۃ المبارکہ کے شروع میں الفاظ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ آئے ہیں اس لیے اس سورۃ المبارکہ کا نام فاطر ہو گیا نیز اس سورۃ المبارکہ کو سورۃ الملائکۃ بھی کہتے ہیں چونکہ شروع کی آیت میں الفاظ جَاعِلِ الۡمَلٰٓئِکَۃِ آئے ہیں۔

یہ سورۃ المبارکہ چونکہ مکی ہے اس لیے اس سورۃ کے مضامین میں مکی فضا دکھائی دیتی ہے۔ یعنی بیشتر آیات اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، ربوبیت اور تدبیری آیات کے بیان پر مشتمل ہیں۔ سورہ فاطر اور سورہ سبا کو حمدین کہتے ہیں چونکہ دونوں سورتوں کی ابتداء اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ سے ہوئی ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ جَاعِلِ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیۡۤ اَجۡنِحَۃٍ مَّثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ؕ یَزِیۡدُ فِی الۡخَلۡقِ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱﴾

۱۔ ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا ایجاد کرنے والا نیز فرشتوں کو پیام رساں بنانے والا ہے جن کے دو دو، تین تین اور چار چار پر ہیں، وہ جیسے چاہتا ہے مخلوقات میں اضافہ فرماتا ہے، یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: حمد وثنا کے لائق وہی ذات ہے جس نے بطن عدم کو چیر کر اس سے آسمانوں اور زمین پر مشتمل ایک کائنات کو وجود دیا۔

فاطر کے لغوی معنی شگافتہ کرنے کے ہیں۔ اس سے ایک نکتہ کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق سے پہلے کوئی ایسی چیز موجود تھی جس کی شکافتگی سے یہ کائنات وجود میں آئی۔ وہ آیہ: وَّ کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ۔۔۔۔ (۱۱ ہود: ۷) اس کائنات کی تخلیق سے پہلے اللہ کی سلطنت پانی پر تھی، کے مطابق پانی ہو سکتا ہے۔ پانی مایۂ حیات اور تمام زندہ موجودات کا مادۂ مشترکہ ہے لیکن پانی کی تفصیل میں اس سے زیادہ نہیں جا سکتے کہ پانی سے مراد مائع مذاب ہے یاگیس یا انسوڈیم یا ہوا ہے۔ ایسے غیبی موضوعات میں صریح نص کے بغیر اظہار خیال کرنا درست نہیں۔

۲۔ جَاعِلِ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا: فرشتوں کو پیام رساں بنانے والا۔ فرشتے اللہ کے کارندے ہیں۔ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے امور تکوینی و تشریعی دونوں میں رسل بنایا ہے:

اِنَّ رُسُلَنَا یَکۡتُبُوۡنَ مَا تَمۡکُرُوۡنَ﴿۲۱﴾ (۱۰یونس: ۲۱)

بیشک ہمارے فرشتے تمہاری حیلے بازیاں لکھ رہے ہیں۔

حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ تَوَفَّتۡہُ رُسُلُنَا۔۔۔۔ (۶الانعام: ۶۱)

یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی ایک کو موت آ جائے تو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اس کی روح قبض کر لیتے ہیں۔

قَالُوۡۤا اِنَّاۤ اُرۡسِلۡنَاۤ اِلٰی قَوۡمٍ مُّجۡرِمِیۡنَ لِنُرۡسِلَ عَلَیۡہِمۡ حِجَارَۃً مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿ۙ۳۳﴾ (۵۱ زاریات: ۳۳۔۳۲)

انہوں نے کہا: ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ تاکہ ہم ان پر مٹی کے کنکر برسائیں۔

ان تمام آیات میں فرشتوں کو امور تکوینی کی انجام دہی کے لیے بھیجے جانے کا ذکر ہے اور فرشتے اللہ کے احکام تشریعی لے کر انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوتے تھے جو ایک مسلمہ امر ہے۔

۳۔ اُولِیۡۤ اَجۡنِحَۃٍ: یہ فرشتے پروں والے ہوتے ہیں۔ دو دو، تین تین اور چار چار پروں والے ہوتے ہیں۔ فرشتے غیر مادی مخلوقات ہیں جنہیں پروں کی ضرورت نہیں ہوتی تو یہاں پروں سے کیا مراد ہے؟ ایک نظریہ یہ ہے کہ یہ سرعت انتقال کو سمجھانے کے لیے ایک تصور ہے۔

دوسرا نظریہ یہ ہے کہ پروں سے مراد فرشتوں کے مراتب ہیں کچھ فرشتوں کا مرتبہ دیگر فرشتوں سے زیادہ بلند ہے۔ چنانچہ جبرئیل امین کے بارے میں فرمایا:

مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیۡنٍ ﴿۲۱﴾ (۸۱تکویر: ۲۱)

وہاں ان کی اطاعت کی جاتی ہے اور وہ امین ہیں۔

وَ مَا مِنَّاۤ اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعۡلُوۡمٌ﴿۱۶۴﴾ (۳۷صافات: ۱۶۴)

اور (ملائکہ کہتے ہیں) ہم میں سے ہر ایک کے لیے مقام مقرر ہے۔

اس طرح بعض فرشتے دوسرے فرشتوں کے لیے حکم صادر کرتے ہیں اور دوسرے فرشتے ان کی اطاعت کرتے ہیں۔

۴۔ یَزِیۡدُ فِی الۡخَلۡقِ مَا یَشَآءُ: عالم ملائکہ میں تخلیق کا سلسلہ جاری ہے۔ آناً فآناً فرشتے خلق ہو رہے ہیں۔ تخلیق کا سلسلہ ختم نہیں ہوا کیونکہ سرچشمۂ فیض سے فیض منقطع نہیں ہو سکتا:

کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ ﴿۲۹﴾ (۵۵ رحمن: ۲۹)

وہ ہر روز ایک (نئی ) کرشمہ سازی میں ہے۔

حدیث میں آیا ہے:

ما من شیء مما خلق اللّٰہ عز و جل اکثر من الملائکۃ۔ ( بحار ۹۷: ۱۱۷۔ المیزان ذیل آیہ)

اللہ عز و جل کی مخلوقات میں فرشتوں سے زیادہ کوئی مخلوق نہیں ہے۔

نیز حدیث میں آیا ہے:

لوگوں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کے فرشتوں میں سے محافظین نہ ہوں جو اسے کسی کنویں میں گرنے یا اس پر کوئی دیوار گرنے اور کسی برائی میں مبتلا ہونے سے بچاتے ہیں۔ جب اس کی موت آجاتی ہے تو فرشتے اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ( المیزان ذیل آیت)

لہٰذا فرشتے اللہ کے کارندے ہیں۔ حکم خدا سے انحراف نہیں کرسکتے۔ تدبیر کائنات میں فرشتے دھوپ، پانی اور مٹی کی طرح ہیں کہ جس کام پر اللہ نے لگایا ہے اسی میں لگے رہتے ہیں۔ ذرہ برابر خلاف ورزی نہیں کرتے۔

اہم نکات

۱۔ فرشتے تدبیر کائنات کے کارندے ہیں۔

۲۔ کائنات اسباب و علل کی بنیاد پر قائم ہے۔

۳۔ فرشتوں کے بھی مراتب ہوتے ہیں۔


آیت 1