آیت 9
 

اَوَ لَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَانُوۡۤا اَشَدَّ مِنۡہُمۡ قُوَّۃً وَّ اَثَارُوا الۡاَرۡضَ وَ عَمَرُوۡہَاۤ اَکۡثَرَ مِمَّا عَمَرُوۡہَا وَ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ ؕ فَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظۡلِمَہُمۡ وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ ؕ﴿۹﴾

۹۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ دیکھ لیتے کہ ان سے پہلوں کا کیا انجام ہوا؟ جب کہ وہ قوت میں ان سے زیادہ تھے انہوں نے زمین کو تہ و بالا کیا(بویا جوتا) اور انہوں نے زمین کو ان سے کہیں زیادہ آباد کر رکھا تھا جتنا انہوں نے زمین کو آباد کر رکھا ہے اور ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے، پس اللہ تو ان پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَوَ لَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ: مشرکین کے لیے ایک خبردار اور تباہی کی ایک خبر ہے جس میں دعوت فکر بھی ہے کہ اگر تم زمین میں چل پھر کر اقوام گذشتہ کے انجام کا مطالعہ کرو تو تمہیں خود اپنی تباہی نمایاں طور پر نظر آئے گی۔

۲۔ کَانُوۡۤا اَشَدَّ مِنۡہُمۡ قُوَّۃً: جن قوموں کی تباہی کا منظر تمہارے سامنے آئے گا وہ قوم تم سے زیادہ طاقتور تھی۔ ان کی طاقت کے آثار تمہیں نمایاں طور پر نظر آئیں گے۔ مشرکین مکہ کے پاس تو ان اقوام کی بہ نسبت کوئی طاقت موجود نہیں ہے۔

۳۔ وَّ اَثَارُوا الۡاَرۡضَ وَ عَمَرُوۡہَاۤ: وَّ اَثَارُوا کے معنی تہ و بالا کرنے کے ہیں جو آباد کاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ زمین کو تہ و بالا کرنے میں زراعت بھی شامل ہے نیز کان کنی اور نہریں بنانا بھی اس میں شامل ہے۔

۴۔ اَکۡثَرَ مِمَّا عَمَرُوۡہَا: ان تباہ اقوام نے زمین کو مکہ والوں سے زیادہ آباد کیا تھا۔ ان کی یہ آباد کاری ان کے کام نہ آئی، وہ تباہ ہو گئیں۔ ان اقوام کے مقابلے میں مکہ والوں کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے۔

۵۔ وَ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ: ان اقوام کی طرف ان کے رسول واضح دلیل لے کر آئے تو ان لوگوں نے ان رسولوں کی تکذیب کی۔ اس تکذیب کے نتیجے کے یہ خود ذمے دار ہیں۔ اللہ لوگوں کو ان رسولوں کے ذریعے ہدایت دینا چاہتا تھا، ظلم کرنا نہیں چاہتا تھا۔

روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزند سے فرمایا:

اَیْ بُنَیَّ اِنِّی وَ اِنْ لَمْ اَکُنْ عُمِّرْتُ عُمُرَ مَنْ کَانَ قَبْلِی فَقَدْ نَظَرْتُ فِی اَعْمَالِہِمْ وَ فَکَّرْتُ فِی اَخْبَارِہِمْ وَ سِرْتُ فِی آثَارِہِمْ حَتَّی عُدْتُ کَاَحَدِہِمْ بَلْ کَاَنِّی بِمَا انْتَہَی اِلَیَّ مِنْ اُمُورِہِمْ قَدْ عُمِّرْتُ مَعَ اَوَّلِہِمْ اِلّی آخِرِہِمْ ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ خط : ۳۱)

اے فرزند! اگرچہ میں نے اتنی عمر نہیں پائی جتنی اگلے لوگوں کی ہوا کرتی تھی۔ پھر بھی میں نے ان کی کارگزاریوں کو دیکھا۔ ان کے حالات و واقعات میں غور کیا اور ان کے چھوڑے ہوئے نشانات میں سیر و سیاحت کی یہاں تک کہ گویا میں بھی انہی میں کا ایک ہو چکا ہوں بلکہ ان سب کے حالات و معلومات جو مجھ تک پہنچ گئے ہیں ان کی وجہ سے ایسا ہے کہ گویا میں نے ان کے اول سے لے کر آخر تک کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔

اہم نکات

۱۔ تاریخی تحولات ناقابل تغیر قانون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔


آیت 9