آیت 8
 

اَوَ لَمۡ یَتَفَکَّرُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ ۟ مَا خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآیِٔ رَبِّہِمۡ لَکٰفِرُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ کیا انہوں نے اپنے (دل کے) اندر یہ غور و فکر نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو برحق اور معینہ مدت کے لیے خلق کیا ہے؟ اور لوگوں میں یقینا بہت سے ایسے ہیں جو اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَوَ لَمۡ یَتَفَکَّرُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ: کیا وہ اپنے اندر یعنی اپنے دل میں یہ نہیں سوچتے کہ اس کائنات کو عبث اور لغو نہیں، ایک مقصد و حکمت کے تحت بنایا ہے۔

۲۔ بِالۡحَقِّ: اس کائنات کی تخلیق مبنی برحق ہے اور حقیقت اور امر واقع پر مبنی ہے۔ کیا لوگ اس میں غور نہیں کرتے کہ وہ امر واقع کیا ہو سکتا ہے؟ وہ حق کیا ہو سکتا ہے جو اس کائنات کی تخلیق کا باعث بنا۔

اس کائنات کی تخلیق اور اس نظام کی تدبیر میں غور و فکر کرنے والوں پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس تخلیق و تدبیر کے پیچھے ایک مدبر اور حکیم کا قصد و ارادہ کارفرما ہے۔ اس مدبر و حکیم نے اس بڑی کائنات کو کیوں خلق کیا ہو گا؟ اگر اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے تو یہ دنیا ایک کھلونے سے زیادہ کی معقولیت پر مبنی نہ ہو گی کہ اس دنیا میں انسانیت کی سب سے بڑی خدمت کرنے والا اور اس انسانیت پر سب سے زیادہ ظلم کرنے والا دونوں برابر ہوں۔ نتیجہ دونوں کا ایک، انجام کار دونوں کا ایک جیسا ہو۔

۳۔ بعض نے فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ کے معنی یہ کیے ہیں: کیا انہوں نے اپنے وجود کے بارے میں فکر نہیں کیا؟ لیکن یہ معنی سیاق آیت کے خلاف ہے، اگرچہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اگر انسان خود اپنے بارے میں فکر کرے تو سمجھ جاتا ہے کہ انسان کو اللہ نے اس دنیاوی زندگی کے لیے نہیں بنایا۔ اگر ایسا ہوتا تو جس قدر اس زندگی کی آسائشیں اسے مل جاتیں اسی قدر اسے زیادہ سکون مل جاتا۔ جب کہ ایسا نہیں ہے بلکہ جس قدر کسی کے پاس یہ دنیا زیادہ آتی ہے وہ زیادہ بے سکون ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کی اصل منزل دنیوی زندگی نہیں ہے۔

۴۔ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّی دوسری بات یہ ہے کہ یہ کائنات ایک معین مدت تک کے لیے ہے۔ اس کائنات نے ہمیشہ قائم نہیں رہنا ہے۔ آج تو سب کے لیے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اس کائنات کی بھی ایک عمر ہے تو کیا اس حکیم و مدبر نے اس کائنات کو بے مقصد بنایا اور بے مقصد اس کا خاتمہ کر دے گا۔

اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ﴿﴾ (۲۳مومنون: ۱۱۵)

کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹائے نہیں جاؤ گے؟

۵۔ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ: ان دلائل کے باوجود لوگوں میں ایک کثیر جماعت قیامت کی قائل نہیں ہے۔ یہاں کثیر کا لفظ استعمال فرمایا، اکثر نہیں فرمایا۔ چونکہ تمام ادیان سماوی آخرت کے قائل ہیں، اس لیے اکثر قائل ہو جاتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ کائنات کی تخلیق کے راز میں فکر کرنے والے کو آخرت کا وجود ضروری معلوم ہو گا۔


آیت 8