آیات 38 - 39
 

ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ۚ قَالَ رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۚ اِنَّکَ سَمِیۡعُ الدُّعَآءِ﴿۳۸﴾

۳۸۔اس مقام پر زکریا نے اپنے رب کو پکارا، کہا: میرے رب! مجھے اپنی عنایت سے صالح اولاد عطا کر، یقینا تو ہی دعا سننے والا ہے۔

فَنَادَتۡہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ ہُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیۡ فِی الۡمِحۡرَابِ ۙ اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحۡیٰی مُصَدِّقًۢا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوۡرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۳۹﴾

۳۹۔چنانچہ جب وہ حجرۂ عبادت میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے تو فرشتوں نے آواز دی: اللہ تجھے یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو کلمہ اللہ کی طرف سے ہے وہ اس کی تصدیق کرنے والا، سیادت کا مالک، خواہشات پر ضبط رکھنے والا، نبوت کے مقام پر فائز اور صالحین میں سے ہو گا۔

تشریح کلمات

کَلِمَۃٍ:

( ک ل م ) سے ماخوذہے۔ اس سے کلام بھی مراد لیا جاتا ہے اور ذوات بھی۔ یہاں کلمۃ سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تخلیق بغیر باپ کے کلمۃ کن سے ہوئی۔ اس لیے آپ علیہ السلام کو کلمۃ کہا جاتا ہے۔

حَصُوۡرًا:

( ح ص ر ) ضبط نفس اور خواہشات پر کنٹرول رکھنے والا۔

یَحۡیٰی:

عہد جدید میں ان کا نام یوحنا آیا ہے۔ آپ حضرت مریم (س)کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ انجیل کے مطابق آپ حضرت عیسیٰ (ع)سے صرف چھ مہینے بڑے تھے۔ اس زمانے کے بادشاہ ہیرود نے ایک بدکردار عورت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے آپ کو شہید کیا اور آپ کا سر قلم کر دیا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام ہمیشہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو یاد کر کے گریہ فرماتے تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ ہُنَالِکَ: اس مقام پر۔ یعنی حضرت مریم کی منزلت و پاکیزگی اور ان کو ملنے والے غیبی رزق اور عند اللہ ان کا مقام دیکھ کر حضرت زکریا علیہ السلام کے دل میں اولاد کی خواہش زیادہ ہو گئی۔ چونکہ حضرت زکریا کے ہاں اولاد نہ تھی۔

۲۔ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً: حضرت زکریا علیہ السلام نے صرف اولاد کی نہیں، طیب و طاہر اولاد کی خواہش کی۔ پاکیزہ اولاد باقیات صالحات ہوتی ہیں اور خاندانی متبرکات منجملہ خانۂ رسول کی وارث ہوتی ہیں۔ چنانچہ سورہ مریم آیت ۵ میں حضرت زکریا علیہ السلام کی اس دعا کو ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:

فَہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ﴿﴾ یَّرِثُنِیۡ وَ یَرِثُ مِنۡ اٰلِ یَعۡقُوۡبَ ٭ۖ وَ اجۡعَلۡہُ رَبِّ رَضِیًّا﴿﴾ (۱۹مریم:۶)

پس تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما۔ جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے۔۔۔

حضرت زکریا علیہ السلام کے اپنے بعد کے لیے وارث کی درخواست سے یہ بات قرآنی صراحت سے واضح ہو جاتی ہے کہ انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔ اس موضوع پر تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: سورہ مریم آیت ۵، ۶۔ سورہ نمل آیت ۱۶۔

۳۔ فَنَادَتۡہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ: چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے یہ خوش خبری سنا دی کہ انہیں ایک بچہ دیا جائے گا، جس کے یہ اوصاف ہوں گے:

۱۔ مُصَدِّقًۢا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وہ کلمۃ اللہ یعنی حضرت عیسیٰ (ع)کی تصدیق کرنے والا ہو گا۔

۲۔ سیادت و سرداری کا مالک ہو گا: وَ سَیِّدًا ۔

۳۔ خواہشات نفسانی پر ضبط اور اختیار رکھنے والا ہو گا: وَّ حَصُوۡرًا ۔

۴۔ نبوت کے مقام پر فائز ہوگا: وَّ نَبِیًّا ۔

۵۔ صالحین میں سے ہو گا: مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ۔

دوسری جگہ حضرت یحییٰ (ع) کے بارے میں ارشاد ہے:

...وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡحُکۡمَ صَبِیًّا ﴿﴾ (۱۹مریم:۱۲)

اور ہم نے اسے بچپن ہی سے حکمت عنایت کی۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کے نیک بندے فقط اولاد کی نہیں، بلکہ اولاد صالح کی تمنا کیا کرتے ہیں: رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۔۔۔۔


آیات 38 - 39