آیت 8
 

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ﴿۸﴾

۸۔ ہمارے رب! جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عنایت فرما، یقینا تو بڑا عطا فرمانے والا ہے۔

تفسیر آیات

سابقہ آیت میں فرمایا گیا کہ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنے اور تاویل کی تلاش میں متشابہات کےپیچھے پڑے رہتے ہیں، جب کہ راسخون فی العلم یہ دعا کرتے ہیں: مالک تونے علم دے کر ہمارے دلوں کو کجی سے بچایا ہے اور ہدایت کی نعمت سے ہمیں نوازا ہے، اب اس ہدایت کو برقرار رکھنا۔ راسخون فی العلم جانتے ہیں کہ بندہ ہمیشہ اپنے رب کی طرف سے ہدایت کا محتاج ہے اور اگر ایک لمحے کے لیے اس کی رحمت سے محروم ہو گیا تو پھر اسے تباہی سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا۔

وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً: ہدایت پر قائم رہنے کے بعد انسان رحمت الٰہی کے لیے اہل بن جاتا ہے۔ اہل بننے کے بعد رحمت کی درخواست کرتا ہے۔ ہدایت ملنے کے بعد مؤمن خوف و رجا، بیم و امید کے درمیان ہوتا ہے:

یَّحۡذَرُ الۡاٰخِرَۃَ وَ یَرۡجُوۡا رَحۡمَۃَ رَبِّہٖ ۔۔۔۔(۳۹ زمر۔ ۹)

آخرت کا خوف رکھتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے۔

امام جعفر صادق (ع) سے روایت ہے:

اکثروا من ان تقولوا: رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا و لا تأمنوا الزیغ ۔ (تفسیر عیاشی ۱: ۱۶۴)

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا اکثر کہا کرو اور کجی آنے کے بارے میں بے فکر مت رہو۔

اہم نکات

۱۔ انسان ہر آن اور ہر لحظہ ہدایت و رحمت کا محتاج ہے لہٰذا اسے ہمیشہ درگاہ خدا وندی میں دست بدعا رہنا چاہیے۔

۲۔ انسان کسی بھی لمحے ہادی سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔

۳۔ فکری کجروی، ہدایت و رحمت اور فکری تکامل کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔


آیت 8