آیت 6
 

ہُوَ الَّذِیۡ یُصَوِّرُکُمۡ فِی الۡاَرۡحَامِ کَیۡفَ یَشَآءُ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۶﴾

۶۔ وہی تو ہے جو (ماؤں کے) رحموں میں جیسی چاہتا ہے تمہاری تصویر بناتا ہے، اس غالب آنے والے، حکمت کے مالک کے سوا کوئی معبود نہیں۔

تفسیر آیات

ہُوَ الَّذِیۡ یُصَوِّرُکُمۡ فِی الۡاَرۡحَامِ: الارحام، رحم کی جمع ہے۔ وہ جگہ جہاں جنین کی تخلیق و تدوین اور آیت کی تعبیر کے مطابق صورت گری ہوتی ہے۔ رحم کے اطلاق سے نزول قرآن کے زمانے اور ہمارے زمانے میں رحم مادر ذہنوں میں آتا ہے، کیونکہ گزشتہ زمانے میں ماں کے بغیر رحم کا تصور ممکن نہ تھا۔ قرآنی تعبیر میں الارحام مطلق ذکر ہوا ہے، ارحام الامہات (ماؤں کے رحم) نہیں فرمایا، لہٰذا رحم میں ہر وہ جگہ شامل ہے جس میں جنین کی پرورش ہوتی ہے۔

انسان کی تخلیق خلیوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ خلیہ (cell) اس کائنات کی سب سے زیادہ حیرت انگیز مخلوق ہے اور اس خلیے میں راز حیات مضمر ہے۔ جو درس اللہ تعالیٰ نے ابتدائے تخلیق میں اس خلیے کو پڑھایا ہے، وہ اسے خود بھی یاد رکھتا ہے اور آنے والی نسلوں کی طرف بھی منتقل کرتا ہے:

وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَا (۷ اعراف: ۱۷۲)

اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور ان پر خود انہیں گواہ بنا کر (پوچھا تھا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا تھا: ہاں! (تو ہمارا رب ہے) ہم اس کی گواہی دیتے ہیں،

اس درس سے وہ اپنے خالق کو پہچانتا ہے اور تقسیم کے ذریعے ارتقاء و تخلیق کا عمل انجام دیتا ہے۔ اس درس کے ذریعے یہ خلیات اپنے اسلاف کی خاصیتوں کو آنے والی نسلوں کو منتقل کرتے ہیں۔ مثلاً اس درس نے، جو سیلز (Cells) کے جینیاتی سالموں میں درج ہے، یہ کہدیا ہے کہ بچے کو ماموں کی شکل میں لانا ہے تو اس خلیے کو ماموں کی آنکھ، ناک، منہ اور قد کی ساخت کا علم ہے۔

خلیے کی دو قسمیں ہیں: جسمانی خلیہ اور جنسی خلیہ۔ جسمانی خلیے کا مرکزہ ۴۶ کروموزومز (chromo somes) پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک مستقل خلیہ ہے۔ لیکن جنسی خلیے کا مرکزہ ۲۳ کروموزومز (chromo somes) پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک مستقل خلیے کا نصف ہے۔

انسانی تخلیق یا ابتدائی سیل (cell) کی تشکیل میں مرد و زن دونوں شریک ہوتے ہیں۔ چنانچہ جرثومہ پدر اور تخم مادر، ہر ایک ۲۳ کروموزومز (chromosomes) پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان دونوں کی آمیزش (۲۳ + ۲۳) سے ۴۶ کروموزومز (chromosomes) پر مشتمل ایک مکمل سیل (cell) تشکیل پاتا ہے، جسے قرآن نے نطفۃ امشاج، مخلوط نطفہ کہا ہے۔ اس سیل (cell) اور دیگر جسمانی (cell) میں فرق یہ ہے کہ یہ سیل تقسیم کے ذریعے ارتقائی مراحل طے کرتا ہے۔ ایک سے دو۔ دو سے چار۔ آٹھ ، سولہ، بتیس۔ اس کے بعد تخصص، سپیشلائزیشن (specialization) کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق تخصص کا عمل خلیوں کی تعداد ۱۲۸تک پہنچنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور ہر سیل کو ایک ایک شعبے کا انچارج بنا دیا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے اپنے شعبوں میں فعال ہوتے ہیں۔ کچھ ہڈیاں، کچھ اعصاب، کچھ آنتیں، کچھ دماغ وغیرہ بنانے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ جب ہر شعبہ اپنا کام مکمل کر لیتا ہے تو ایک کامل انسان خَلۡقًا اٰخَرَ وجود میں آ جاتا ہے:

ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ (۲۳ مومنون: ۱۴)

پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا، پس بابرکت ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین خالق ہے۔

لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ: اس ذات کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہو سکتا جس نے تمہاری تصور گری کی ہے۔ اس سے عبادت کی تعریف نکل آتی ہے کہ کسی ذات کو خالق سمجھ کر اس کی تعظیم کی جائے، وہ عبادت ہے۔


آیت 6