آیات 3 - 4
 

نَزَّلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ اَنۡزَلَ التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ۙ﴿۳﴾

۳۔ اس نے حق پر مبنی ایک کتاب (اے رسول) آپ پر نازل کی جو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس نے توریت و انجیل کو نازل کیا۔

مِنۡ قَبۡلُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ اَنۡزَلَ الۡفُرۡقَانَ ۬ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ ذُو انۡتِقَامٍ﴿۴﴾

۴۔ اس سے پہلے انسانوں کی ہدایت کے لیے اور فرقان (حق و باطل میں امتیاز کرنے والا قانون) نازل فرمایا، جنہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا ان کے لیے سخت عذاب ہے، اللہ بڑا غالب آنے والا، خوب بدلہ لینے والا ہے۔

تشریح کلمات

انۡتِقَامٍ:

( ن ق م )۔ قسمت۔ عذاب۔ بدلہ لینا۔

الۡحَقِّ:

( ح ق ق ) حقیقت۔ جو کلام، حقیقت کے مطابق ہو اسے صادق کہتے ہیں اورجو حقیقت کلام کے مطابق ہو اسے حق کہا جاتا ہے۔

التَّوۡرٰىۃَ:

( و۔ ر۔ ی ) شریعت، قانون۔ یہ موجودہ بائبل کے عہد قدیم کا نام ہے جو یہودیوں کے مندرجہ ذیل صحیفوں کا مجموعہ ہے۔

الف۔ توریت: یہ یہودیوں کا سب سے زیادہ مستند اور مقدس صحیفہ ہے اور پانچ کتب پر مشتمل ہے۔ i۔ تکوین ii۔ خروج iii۔ لاویین iv۔ اعداد v۔ تثنیہ۔

یہ پانچ کتابیں حضرت موسیٰ (ع) کی طرف منسوب ہیں، باقی حضرت عیسیٰ (ع) سے ۳۹۷ سال قبل والے انبیاء (ع)کی طرف منسوب ہیں۔

ب۔ صحائف انبیاء : یہ آٹھ صحیفوں پر مشتمل ہیں۔

ج۔ صحائف مقدسہ : یہ گیارہ صحیفوں پر مشتمل ہیں۔ کل ۲۴ صحائف بنتے ہیں۔

تفسیر آیات

قرآنی دلائل کے علاوہ جدید تحقیق سے بھی ثابت ہو گیا ہے کہ موجودہ توریت اور دیگر صحائف اللہ کا کلام نہیں ہیں، بلکہ مختلف زمانوں میں مختلف انسانوں کی ساختہ و پرداختہ ہیں۔ یعنی توریت کے اصل صحیفوں کے ضیاع کے بعد یہودیوں نے انہیں نئے سرے سے مرتب کیا۔ اصل صحائف کے ضائع ہونے پر بہت سے تاریخی شواہد موجود ہیں کہ مختلف ادوار میں حملہ آوروں اور فاتحین نے فلسطین کو اور خاص کر یروشلم کو تہ و بالا کر دیا اور ان کی آبادی کو جلا کر راکھ کر ڈالا اور وہاں کے یہودیوں کو جلا وطن کر دیا۔

ظاہر ہے اس زمانے میں نہ تو آج کل کی طرح کتابوں کے زیادہ نسخے اور نہ ہی پڑھے لکھے لوگ ہوتے تھے۔ چند نسخے چند ایک لوگوں کے پاس ہوا کرتے تھے، جو حادثات کی نذر ہو گئے۔ بعد میں یہودی علماء نے روایات کی بنا پر ان صحیفوں کو مرتب کر دیا۔ چنانچہ عہدین کتاب دوم تاریخ ایام ۱۵: ۲ میں آیا ہے:

بنی اسرائیل ایک لمبی مدت توریت کے بغیر رہے۔

نیز عہدین تاریخ باب ۲۲۔ ۲۳ میں آیا ہے:

بنی اسرائیل کے بادشاہ یوشیا کے دور میں خانۂ خدا میں داخل شدہ چاندی کو جب باہر نکال رہے تھے تو حلقیا کاہن نے یوشیا کے وزیر شافان سے کہا: مجھے خانۂ خدا میں توریت مل گئی۔ شافان نے بادشاہ سے کہا: حلقیا کاہن نے توریت مجھے دی ہے۔

قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ توریت کو یہودیوں نے حضرت موسیٰ (ع)کے بعد ۵۸۶ ق م میں بخت نصر کے حملے اور یروشلم کی تباہی اور یہودیوں کی مملکت بابل میں اسیری کے پچاس سال بعد لکھا ہے، کیونکہ ماہرین کے مطابق موجودہ توریت میں بابلی الفاظ کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔

بعض ماہرین کی تحقیقات کے مطابق موجودہ توریت حضرت موسیٰ (ع)کے پانچ سو سال بعد لکھی گئی ہے اور اس زبان کا بھی علم نہیں ہو سکا، جس میں توریت لکھی گئی تھی۔ کیونکہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ (ع) عبرانی زبان جانتے تھے، بلکہ ان کی زبان تومصری تھی۔ لہٰذا اس توریت کا سرے سے کوئی علم ہی نہیں ہے جو مصری زبان میں لکھی گئی تھی اور نہ ہی اس بات کا علم ہے کہ یہ ترجمہ کس نے کیا ہے؟

علامہ محمد جواد بلاغی اپنی کتاب الھدی الی دین المصطفیٰ میں تحریر فرماتے ہیں:

عہدقدیم کی قدیم زبان، بابل کی اسیری تک عبرانی تھی اور بابل کی اسیری کے بعد ان میں سے بعض کتب کلدانی زبان میں تھیں جو بابل کی زبان ہے۔ بعد میں ۷۲ یہودی دانشوروں نے ۲۸۲ یا ۲۸۵ یا۲۸۶ ق م میں یونانی زبان میں ترجمہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ترجمہ ۷۲ دنوں میں مکمل کیا گیا۔ اس لیے اس ترجمے کو سبعینۃ کہتے ہیں۔ یہ ترجمہ یہودیوں اور قدیم مسیحیوں میں نہایت محترم اور قابل اعتبار سمجھا جاتا تھا اور عہد جدید کے مصنفوں نے توریت کے اکثر حصوں کو اسی نسخے سے لیا ہے۔

عبرانی متن میں ایسے آثار بھی پائے جاتے ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زمانۂ قدیم میں مختلف وجوہ کی بنا پر متن میں رد و بدل کرنا جائز سمجھا جاتا تھا۔ مثلاً اسماء میں تبدیلی، عبارت میں تغیر و تبدل وغیرہ۔ پھر یہ تغیرات ایک وقت میں نہیں، بلکہ مختلف اوقات میں ہوتے رہے۔ اتنا تو خود یہودی علماء بھی تسلیم کرتے ہیں کہ توریت میں ۱۸ مقامات ایسے ہیں جہاں زمانۂ قدیم میں کاتبوں نے عمداً تبدیلیاں کیں۔ ان کے علاوہ معلوم نہیں کہ کس قدر تغیر و تبدل ہوا ہو گا، جسے یقین کے ساتھ معلوم کرنا اس وقت یا آئندہ ناممکن ہے۔ (دائرہ معارف اسلامی ۶: ۷۱۰)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرآن ان سب باتوں کی تصدیق کرتا ہے، جو ان صحیفوں میں درج ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (ع)نے بنی اسرائیل کے سامنے جو توریت پیش کی تھی، قرآن کریم نے اس کا ذکربڑی عزت و تجلیل کے ساتھ کیا ہے اور اسے فرقان، ضیاء اور رحمت جیسے قابل احترام الفاظ کے ساتھ یاد کیا ہے۔ قرآن اس توریت کی تصدیق کرتا ہے جو اللہ نے حضرت موسیٰ (ع) کے لیے الواح پر تحریر کی تھی:

وَ کَتَبۡنَا لَہٗ فِی الۡاَلۡوَاحِ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ مَّوۡعِظَۃً وَّ تَفۡصِیۡلًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ (۷ اعراف: ۱۴۵)

اور ہم نے موسیٰ کے لیے (توریت کی) تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھی۔

ممکن ہے کہ موجودہ توریت میں مختلف مقامات پر حقیقی توریت کے کچھ منتشر اجزا موجود ہوں۔ قرآن کریم ان حقیقی اجزا کی تصدیق کرتا ہے۔ قرآن تحریف سے پاک توریت کی مکمل تصدیق کرتا ہے۔ موجودہ توریت کے بارے میں قرآن کا مؤقف یہ ہے کہ یہ تحریف شدہ ہے اور لوگوں نے اسے خود اپنے ہاتھوں سے لکھ کر اللہ کی طرف منسوب کیا ہے۔

انجیل: قرآن کی نظر میں انجیل سے مراد وہ تعلیمات ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئیں۔ مسیحی نقطہ نظر کے مطابق چار کتابوں کے مجموعے کا نام انجیل ہے۔ جو کتابیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد مرتب ہوئیں:

۱۔ انجیل متی: یہ کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تیس سال بعد یروشلم میں عبرانی زبان میں مرتب ہوئی۔ یہ انجیل اصل میں عبرانی زبان میں تھی۔ بعد میں یونانی زبان میں اس کا ترجمہ ہوا۔ اصل انجیل ناپید اورمفقود ہے۔ (تفسیر المیزان از کتاب میزان الحق و قاموس الکتاب المقدس)

۲۔انجیل مرقس: یہ کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ۶۶ سال بعد یونانی زبان میں مرتب ہوئی۔ مرقس، بطرس کا شاگرد تھا اور حواریوں میں سے نہیں تھا۔ مرقس نے بطرس کے کہنے پر یہ انجیل لکھی۔ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے اللہ ہونے کے قائل نہ تھے۔ (ترجمہ الاخبار تالیف بطرس قرماج۔ المیزان ۳:۱ ۳۱)

۳۔انجیل لوقا: یہ تیسری انجیل ہے جوپہلی دو انجیلوں کے بعد لکھی گئی۔ لوقا حواری نہ تھا، بلکہ اس نے نصرانیت بولس سے سیکھی اور بولس متعصب یہودی تھا۔ وہ حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کو اذیتیں دیا کرتا تھا۔ بعد میں اس نے بظاہر مسیحیت قبول کرنے کا اعلان کیا۔ موجودہ نصرانیت کی تشکیل کرنے والا یہی بولس ہے۔ (قاموس الکتاب المقدس تالیف: مسٹر ھاکس)

۴۔ انجیل یوحنا: یہ کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات، یعنی زمین سے اٹھ جانے کے ساٹھ سال بعد مرتب ہوئی۔ (دائرہ معارف قرن عشرین۔)

قرآن انجیل کا ذکر لفظ مفرد کے ساتھ کرتا ہے، جب کہ نزول قرآن کے وقت چار اناجیل مسیحیوں میں رائج تھیں، کیونکہ یہ چاروں اناجیل قرآن کے نزدیک اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں بلکہ تحریف شدہ ہیں۔

دین اسلام کو مومنین کے اذہان میں راسخ کرنے کے لیے ان آیات میں یہ ارشاد ہو رہا ہے کہ دین اسلام ادیان عالم کا ایک تسلسل ہے اور جو کتاب اسلامی دستور لے کر آئی ہے، وہ حق پر مبنی ہے۔ یہ کتاب سابقہ آسمانی کتب توریت اور انجیل کی تصدیق کرتی ہے۔ اس سے یہ عندیہ ملتاہے کہ جوتوریت اور انجیل اس زمانے میں لوگوں کے پاس موجود تھیں، ان کی تصدیق کرتی ہے۔ اگرچہ ان میں تحریف و تبدیلی واقع ہوئی ہے، کیونکہ ان میں حقیقی توریت و انجیل کے کچھ اجزاء تو بہرحال موجود ہیں۔

فرقان: حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کتاب نازل فرمانے اور توریت و انجیل کے ذکر کے بعد فرمایا کہ اللہ نے فرقان نازل کیا ہے۔ قرآن کے ذکر کے بعد فرقان کے ذکر سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ فرقان سے مراد قرآن نہیں ہے، بلکہ فرقان سے مراد وہ اسلامی تعلیمات ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بذریعہ وحی نازل ہوئی ہیں۔ فرقان حق و باطل میں امتیاز کرنے کے معنی میں ہے۔ ا س کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے علاوہ بھی ایسے دستور و احکام نازل فرمائے ہیں، جو انسانیت کی ہدایت اور حق و باطل میں امتیاز کا کام دیتے ہیں اور وہ سنت رسول (ص) ہیں۔

کتاب و فرقان نازل کرنے اور حجت پوری کرنے کے بعد منکرین کو عذاب میں ڈالنا اور ان سے انتقام لینا خدائی فیصلہ ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی گرفت کی مضبوطی کی طرف اشارہ فرما رہا ہے۔ بہت سے مجرمین سزا سے اس لیے بچ جاتے ہیں کہ سزا دینے والے کا علم یا اس کی طاقت محدود ہوتی ہے، لیکن چونکہ اللہ کی طاقت اور اس کا علم بھی لامحدود ہے، لہٰذا کوئی مجرم سزا سے نہیں بچ سکتا۔


آیات 3 - 4