آیات 1 - 3
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ العنکبوت

اس سورۃ المبارکۃ کا نام العنکبوت اس لیے ہے کہ اس میں العنکبوت کا ذکر آیا ہے:

مَثَلُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَوۡلِیَآءَ کَمَثَلِ الۡعَنۡکَبُوۡتِ ۖۚ اِتَّخَذَتۡ بَیۡتًا ؕ وَ اِنَّ اَوۡہَنَ الۡبُیُوۡتِ لَبَیۡتُ الۡعَنۡکَبُوۡتِ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ﴿﴾ (۲۹ عنکبوت: ۴۱)

یہ سورۃ ۶۹ آیات پر مشتمل ہے۔ آیات کی تعداد میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

بعض آیات سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ سورۃ اس وقت نازل ہوئی جب بعض مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے اور مشرکین کی طرف سے مظالم اس قدر زیادہ تھے کہ کچھ لوگ ایمان کے بعد کفر کا اظہار کرنے لگے۔ اسی کو نفاق کہا گیا ہے جس سے بعض لوگوں کو یہ گمان ہوا کہ یہ آیات مدنی ہیں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے ابوبصیر راوی ہیں:

مَنْ قَرَأ سُوْرَۃَ الْعَنْکَبُوتِ وَ الرُّومِ فِی شَھْرِ رَمَضَانَ لَیْلَۃَ ثَلَاثٍ وَ عَشْرِینَ فَھُوَ وَ اللہِ یَا اَبَا مُحَمَّدٍ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ لَا اَسْتَثْنِی فِیہِ اَبَداً وَ لَا اَخَافُ اَنْ یَکْتُبَ اللہُ عَلَیَّ فِی یَمِینِی اِثْماً وَ اِنَّ لَھَاتَیْنِ السُّورَتَینِ مِنَ اللہِ مَکَاناً ۔ (مجمع البیان)

جو شخص سورۃ العنکبوت اور سورۃ الروم کی تلاوت رمضان کی ۲۳ ویں شب کو کرے اللہ کی قسم اے ابو محمد! (ابو بصیر) وہ اہل جنت میں سے ہے۔ اس میں کسی قسم کا استثنا نہیں کروں گا، نہ ہی مجھے اس کا خوف ہے کہ میں نے جو قسم کھائی ہے اس پر اللہ میرے لیے گناہ مقرر کرے گا چونکہ ان دونوں سورتوں کو اللہ کے نزدیک ایک مقام و منزلت حاصل ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔ الف، لام ، میم۔

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ﴿۲﴾

۲۔ کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟

وَ لَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَلَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۳﴾

۳۔ اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزما چکے ہیں کیونکہ اللہ کو بہرحال یہ واضح کرنا ہے کہ کون سچے ہیں اور یہ بھی ضرور واضح کرنا ہے کہ کون جھوٹے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَحَسِبَ النَّاسُ: ناس سے مراد وہ مسلمان ہیں جو مکہ میں مشرکین کے نرغے میں ہیں اور مشرکین کی طرف سے اس حد تک اذیت برداشت کر رہے ہیں کہ اسلام سے برگشتہ ہونے کے خطرے میں ہیں۔ ان مسلمانوں کو سامنے رکھ کر ایک کلی حکم بیان ہو رہا ہے: ایمان صرف ایک لفظ اٰمَنَّا کے تلفظ سے عبارت نہیں ہے بلکہ ایمان ایک نظام اور دستور حیات کو اپنانے اور اسے اپنانے کی راہ میں پیش آنے والی تمام مشکلات و مصائب کا مجاہدانہ مقابلہ کرنے نیز کردار و امانت کا نام ہے۔ ایسے ایمان کی کوئی قیمت نہیں جس کا انسان کے کردار پر کوئی اثر نہ ہو۔

اگر ایمان کا رتبہ اتنا ارزاں ہوتا کہ لب ہلانے سے حاصل ہو جائے تو صادق و کاذب میں تمیز نہ ہوتی۔ مجاہد اور فراری میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ ایمان کے لیے قربانی دینے اور ایمان کے نام پر مفاد حاصل کرنے والوں میں کوئی امتیاز نہ ہوتا۔

فلسفہ امتحان کے بارے میں ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت ۱۲۴ و آیت ۲۱۴۔

۲۔ وَ لَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ: آزمائش اور امتحان اللہ تعالیٰ کا دائمی قانون ہے جو تمام امتوں میں جاری رہا ہے۔

۳۔ فَلَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ: اللہ کو قدیم سے علم ہے کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے لیکن امتحان کے ذریعے اللہ کا علم ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اللہ کا قدیم علم منصہ شہود میں آتا ہے۔ علم کے مرحلے سے عمل کے مرحلے میں آتا ہے اور عمل سے استحقاق کا مرحلہ آتا ہے۔ نیک عمل سے ثواب اور بد عمل سے عذاب کا مستحق ہونے کا مرحلہ آتا ہے چونکہ امتحان و آزمائش کے ذریعے عملی شکل میں استحقاق کا مرحلہ آنے سے پہلے بلا استحقاق ثواب دے تو سب کو دے۔ نیک کردار اور بدکردار دونوں کو دے۔ یہ ایک عبث کام بن جاتا ہے۔ اس لیے حکمت الٰہی کا یہ تقاضا ہوا کہ کامیابی کے راستوں کو دشوار بنایا جائے۔

فضائل: حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے بابا حضرت علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں:

جب آیۂ اَحَسِبَ النَّاسُ ۔۔۔۔ نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یہ آزمائش کیا ہے فرمایا: یا علی انک تبلی و تبلی بک ۔ یا علی یہ آزمائش آپ کی بھی ہو گی اور آپ کے ذریعے بھی۔ یعنی اس آزمائش سے آپ بھی دوچار ہوں گے اور آپ کے سلسلے میں بھی لوگ آزمائش سے دو چار ہوں گے۔

ملاحظہ ہو: کشف الغمۃ ۱: ۶۱۳ ط بیروت۔ شرح ابن ابی الحدید ۴: ۱۰۸۔

اہم نکات

۱۔ ایمان کی منزل پر کڑی آزمائشوں سے گزر کر فائز ہوا جا سکتا ہے۔


آیات 1 - 3