آیت 6
 

وَ اِنَّکَ لَتُلَقَّی الۡقُرۡاٰنَ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ عَلِیۡمٍ﴿۶﴾

۶۔ اور (اے رسول) یہ قرآن آپ کو یقینا ایک حکیم، دانا کی طرف سے دیا جا رہا ہے۔

تفسیر آیات

ابتدائے بعثت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جن حوصلہ شکن مشکلات کا سامنا تھا ان کے تناظر میں اس آیت کی تلاوت کی جائے تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے:

یہ قرآن ایک حکیم و علیم ذات کے پاس سے آپ کو عطا کیا جا رہا ہے اور آپ کو مشکلات کا سامنا کرنے کا جو حکم دیا ہے، یہ حکم دینے والے میں حکمت کا فقدان ہے اور نہ علم کی کمی ہے۔

لَتُلَقَّی الۡقُرۡاٰنَ: تلقی کوئی چیز وصول کرنے کو کہتے ہیں۔ القاء کسی بات کا ذہن میں ڈال دینا، تعلیم دینا۔ اسی سے تلقین ہے: اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا﴿﴾۔ (۷۳ مزمل: ۵۔ عنقریب آپ پر ہم ایک بھاری حکم (کا بوجھ) ڈالنے والے ہیں۔)

یہ لفظ اس صورت کے لیے استعمال ہوتا ہے کہ وصول اور عطا کرنے کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہو۔ چنانچہ ارسال، ایصال اور انزال میں واسطہ ہو نہ ہو، دونوں صورتوں کے لیے ہے۔

مِنۡ لَّدُنۡ: یہ لفظ عِنْد کے معنوں میں ہے یعنی پاس سے۔ اس میں واسطہ کی نفی کی طرف اشارہ ہے۔ اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ وحی، قلب رسول پر اللہ کی طرف سے براہ راست نازل ہوتی ہے اور جبرائیل امین واسطہ یا حائل نہیں ہیں۔ صرف آواز کی طرح کا ایک ذریعہ ہیں۔

اس کے بعد ذکر ہونے والے قرآنی قصے اس وحی کی عملی صورت کا بیانا ہیں۔

اہم نکات

۱۔ قرآن خدائے حکیم و دانا کی طرف سے رسول کے لیے ایک عطیہ ہے۔


آیت 6