آیات 7 - 9
 

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اِلَی الۡاَرۡضِ کَمۡ اَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ زَوۡجٍ کَرِیۡمٍ﴿۷﴾

۷۔ کیا انہوں نے کبھی زمین کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اس میں کتنی وافر مقدار میں ہر قسم کی نفیس نباتات اگائی ہیں؟

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ؕوَ مَا کَانَ اَکۡثَرُ ہُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۸﴾

۸۔ اس میں یقینا ایک نشانی ضرور ہے مگر ان میں سے اکثر نہیں مانتے۔

وَ اِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ﴿٪۹﴾

۹۔ اور یقینا آپ کا رب ہی بڑا غالب آنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ جو لوگ اللہ کی مدبریت پر ایمان نہیں لاتے اور غیر اللہ کو مدیر و مدبر مانتے ہیں وہ ایک نگاہ زمین کی طرف نہیں ڈالتے کہ خلاقیت اور ربوبیت دو الگ چیزیں نہیں ہیں۔ چنانچہ زمین سے ہر عمدہ چیز کا اگانا یا ہر جفت کا اگانا جہاں اللہ کی خلاقیت پر دلالت کرتا ہے وہاں اللہ کی ربوبیت پر بھی دلالت کرتا ہے۔ کائنات کی تدبیر اسی کے ہاتھ میں ہے۔

۲۔ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً: زمین سے اُگانے میں اس بات پر کہ اللہ ہی مدبر ہے ایک نشانی ہے چونکہ مشرکین اللہ کو خالق سمجھتے ہیں، رازق نہیں سمجھتے۔ زمین سے اُگانے میں اس بات پر ایک واضح دلیل موجود ہے کہ رزق دینا تخلیق سے جدا عمل نہیں ہو سکتا۔ رزق دینا بھی ایک تخلیقی عمل ہے۔ اللہ دانے کا سینہ چاک کر کے زمین سے ہر قسم کا سبزہ اگا کر رزق دیتا ہے جو ایک تخلیق ہے۔

۳۔ وَ اِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ﴿﴾: اے رسول آپ کا رب ہی بالادست ہے۔ تخلیق و تدبیر دونوں پر قادر اور رحیم ہے۔ وہی رازق ہے۔

اہم نکات

۱۔ تخلیق اور تدبیر دو جدا چیزیں نہیں ہیں۔


آیات 7 - 9