آیت 4
 

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡکُ ۨ افۡتَرٰىہُ وَ اَعَانَہٗ عَلَیۡہِ قَوۡمٌ اٰخَرُوۡنَ ۚۛ فَقَدۡ جَآءُوۡ ظُلۡمًا وَّ زُوۡرًا ۚ﴿ۛ۴﴾

۴۔ اور کفار کہتے ہیں: یہ قرآن ایک خود ساختہ چیز ہے جسے اس شخص نے خود گھڑ لیا ہے اور دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مدد کی ہے، (ایسی باتیں کر کے) یہ لوگ ظلم اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا: سے مراد مشرکین مکہ ہیں جو کہتے ہیں یہ قرآن خود ساختہ ہے۔ افۡتَرٰىہُ جس کے گھڑنے میں خود نے بھی کوشش کی ہے۔

۲۔ وَ اَعَانَہٗ عَلَیۡہِ قَوۡمٌ اٰخَرُوۡنَ: دوسرے لوگوں نے بھی اس میں اس کی مدد کی ہے۔

کہتے ہیں: دوسرے لوگوں سے مراد چند آزاد شدہ غلام ہیں جو اہل کتاب تھے اور انہوں نے اسلام قبول کیا۔ روایات میں ان کے نام بھی لیے گئے ہیں: عداس، خویطب بن عبد العزی کا آزاد کردہ غلام۔ یسار، علاء بن الحضرمی کا آزاد کردہ غلام اور جبر، عامر بن ربیعہ کا آزاد کردہ غلام۔ الزام یہ لگایا کہ محمدؐ قدیم قوموں کی داستانیں ان آزاد شدہ غلاموں سے اخذ کرتے ہیں پھر ہمیں وحی کے نام سے سناتے ہیں۔

اس کے جواب میں قرآن نے یہ کہنے پر اکتفا کیا: یہ الزام لگانے والے ظلم اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں چونکہ وہ اپنے اس الزام کی کوئی سند نہیں رکھتے۔

i۔ جب یہ لوگ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محضر میں بیٹھتے تھے، سب کو علم تھا کہ رسولؐ ان سے سنتے ہیں یا یہ لوگ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنتے ہیں۔ کسی نے یہ دعویٰ تک نہیں کیا کہ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان سے سنتے ہوئے دیکھا ہے یا رسولؐ کے پاس بیٹھنے والوں میں سے کسی نے کہا ہے۔

ii۔ اگر ان آزاد شدہ غلاموں سے مواد جمع کر کے ایسا کلام ترتیب دیا جا سکتا ہے تو یہ کام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشرکین مکہ کے لیے زیادہ آسان تھا چونکہ اہل کتاب بھی اس کام میں ان کی مدد کے لیے آمادہ تھے۔ وہ ان غلاموں سے زیادہ پڑھے لکھے، اہل کتاب کے احبار اور ماہرین سے مدد لے سکتے تھے۔

iii۔ یہ آزاد شدہ غلام اہل کتاب کے علماء میں سے نہیں تھے۔ عام اہل کتاب رہ چکے تھے۔ ان کے مبلغ علم کا سب کو اندازہ تھا کہ کیا وہ ایسے علمی مواد فراہم کر سکتے ہیں؟ کیا ان کی علمی صلاحیت اور قرآن کی سطح کلام میں کوئی تناسب ہے؟

iv۔ کیا یہ بات ممکن ہے کہ یہ آزاد شدہ غلام، ناقابل تحمل ظلم و ستم برداشت کر کے کسی دوسرے کی جھوٹی نبوت چمکا دیں۔

اسی طرح اس الزام کے جھوٹ ہونے کے کئی شواہد خود اس الزام میں موجود تھے۔ اس لیے اس کی رد میں صرف ظلم اور جھوٹ کہنے پر اکتفا کیا۔

اہم نکات

۱۔ کبھی جھوٹے الزام میں اس کے جھوٹ ہونے کے شواہد، خود الزام میں موجود ہوتے ہیں۔


آیت 4