آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الفرقان

اس سورہ مبارکہ کی پہلی آیت میں لفظ الفرقان مذکور ہونے نیز سورہ کی مباحث کے مضامین کی مناسبت سے اس سورہ کا نام الفرقان ہے۔

زمان نزول: بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ جب نازل ہو رہی تھی اسلام کو کچھ کامیابیاں حاصل ہو رہی تھیں جن کی وجہ سے مشرکین کا رد عمل پہلے سے شدید تر ہو گیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکی زندگی کے اواسط میں یہ سورۃ نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ آیت نمبر ۵ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی تدوین مکی زندگی میں شروع ہو گئی تھی بلکہ قرآن کے نزول کے ساتھ ساتھ تدوین بھی ہوتی رہی ہے:

وَ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ اکۡتَتَبَہَا فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا﴿﴾

اور کہتے ہیں: (یہ قرآن) پرانے لوگوں کی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھوا رکھی ہیں اور جو صبح و شام اسے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔

بقول مشرکین صبح و شام جو سنائی جاتی ہیں۔ اس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں: ایک تو یہ کہ قرآن کی تدوین ابتدائے وحی سے شروع ہو گئی تھی۔ دوسری بات یہ کہ جس وقت یہ سورۃ نازل ہو رہی تھی قرآن کا ایک قابل توجہ حصہ نازل ہو چکا تھا جسے مشرکین نے محسوس کیا کہ صبح و شام سنایا جاتا ہے۔

یہ سورۃ بالاتفاق ۷۷ آیات پر مشتمل ہے۔ طبرسیؒ کے مطابق آیات کی یہ تعداد اجماعی ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱﴾

۱۔بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا تاکہ وہ سارے جہاں والوں کے لیے انتباہ کرنے والا ہو۔

تشریح کلمات

تَبٰرَکَ:

( ب ر ک ) کے معنی خیر کثیر کے ثبوت و لزوم کے ہیں یہ غالباً صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مختص ہے اور اس خیر کثیر میں سے ایک فرقان کا نازل کرنا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ: بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا۔ قرآن ایک ایسا دستور حیات ہے جو حق اور باطل کو نمایاں کر کے جدا کر دیتا ہے۔ وہ ذات کتنی بابرکت ہو گی جس نے بنی نوع انسان کے لیے قرآن جیسی کتاب ہدایت عنایت فرمائی ہے۔

۲۔ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا: عالمین میں صرف مکلفین شامل ہیں چونکہ غیر مکلف کی تنبیہ نہیں ہوتی۔ مکلفین میں انسان اور جن دونوں شامل ہیں۔ نَذِیۡرَا صرف تنبیہ کا ذکر آیا بشیراً کا ذکر نہیں آیا چونکہ مشرکین، منکرین اور معاندین اس سورہ کے مخاطب ہیں۔

اس آیت میں مستشرقین کے اس الزام کی رد ہے کہ محمدؐ شروع میں صرف مکہ اور اس کے گرد و پیش والوں کی طرف مبعوث ہونے کے مدعی تھے۔ بعد میں محمد نے اپنی دعوت کو وسعت دی۔ حالانکہ مکہ میں نازل ہونے والی اس سورت میں اعلان ہے: یہ رسول سارے جہانوں کی تنبیہ کے لیے آیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ تنبیہ میں بشارت ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

مَنْ حَذَّرَکَ کَمَنْ بَشَّرَکَ ۔ (نہج البلاغۃ حکمت: ۵۹)

جو (برائیوں سے) خوف دلائے وہ تمہارے لیے مژدہ سنانے والے کی مانند ہے۔


آیت 1