آیت 4
 

وَ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَ فَاجۡلِدُوۡہُمۡ ثَمٰنِیۡنَ جَلۡدَۃً وَّ لَا تَقۡبَلُوۡا لَہُمۡ شَہَادَۃً اَبَدًا ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ۙ﴿۴﴾

۴۔ اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں پھر اس پر چار گواہ نہ لائیں پس انہیں اسّی (۸۰) کوڑے مارو اور ان کی گواہی ہرگز قبول نہ کرو اور یہی فاسق لوگ ہیں۔

تشریح کلمات

الۡمُحۡصَنٰتِ:

( ح ص ن ) الاحصان کے اصل معنی المنع لتحصنکم من بأسکم یعنی تحفظ اور حفاظتی حصار میں آنے کی صورت پر گزند کا چھونا منع ہو جاتا ہے۔ اسی سے قلعہ کو الحصن کہتے ہیں۔ اسی معنی کے لحاظ کے ساتھ قرآن میں یہ لفظ درج ذیل معانی میں استعمال ہوا ہے:

i۔ آزاد غیر مملوک: فَعَلَیۡہِنَّ نِصۡفُ مَا عَلَی الۡمُحۡصَنٰتِ ۔۔۔ (۴ نساء: ۲۵)۔ اس آیت میں الۡمُحۡصَنٰتِ سے مراد آزاد عورتیں ہیں جو کنیز نہیں ہیں۔ مملوکیت جن کے لیے منع ہے۔

ii۔ شادی شدہ: وَّ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ ۔۔۔ (۴ نساء: ۲۴)۔ الۡمُحۡصَنٰتُ سے یہاں منکوحہ عورتیں مراد ہیں جو مرد کے حفاظتی حصار میں آگئی ہوں۔

iii۔ پاکدامنی: وَ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ ۔ یہاں الۡمُحۡصَنٰتِ پاکدامن عورتیں ہیں جو اپنی عفت کو حفاظت میں رکھتی ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ: الرمی کسی نشانی پر کوئی چیز پھینکنے کو کہتے ہیں۔ یہاں پاکدامن عورتوں پر بے عفتی کا بہتان لگا کر ان کی عزت و وقار کو مجروح کرنے کے لیے یہ تعبیر اختیار کی گئی ہے۔

۲۔ الۡمُحۡصَنٰتِ: اس جگہ الۡمُحۡصَنٰتِ سے مراد پاکدامن عورتیں ہیں۔ وہ عورتیں جن کی بے عفتی پر چار گواہ مکمل نہ ہوئے ہوں پاکدامن شمار ہوتی ہیں۔ یعنی شرعاً پاکدامن ہیں۔ واقع کے اعتبار سے ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔

۳۔ ثُمَّ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَ: زنا کا الزام لگانے کے بعد چار گواہ پیش نہ کر سکے تو یہ قابل سرزنش جرم ہے۔

آیت میں اگرچہ عورتوں کا ذکر ہے لیکن یہ حکم مردوں پر بہتان لگانے والوں کے لیے بھی ہے۔ اس طرح کہ آیت میں یَرۡمُوۡنَ جمع مذکر استعمال ہوا ہے کہ بہتان لگانے والے مردوں کا ذکر ہے لیکن اگر عورتیں کسی پر زنا کا الزام لگاتی ہیں تو ان کا بھی یہی حکم ہے۔ اس الزام کو فقہی زبان میں قذف کہتے ہیں۔

قذف کے الفاظ: کوئی کسی سے کہہ دے : تو زانی ہے، تو نے زنا کیا ہے، تو نے بدفعلی کی ہے، تیرے ساتھ بدفعلی ہوئی ہے اور ان تعبیروں سے زنا اور بد فعلی (عمل قوم لوط) سمجھی جاتی ہے تویہ قذف ہے۔ ساتھ یہ شرط بھی ہے کہ ان الفاظ کا کہنے والا بھی اس کے مفہوم سے باخبر ہو۔

یہ تعبیرات بھی قذف ہیں: تو اپنے باپ کا نہیں ہے۔ اے زانیہ کے بیٹے، کہنے کی صورت میں اس کی ماں پر قذف ہے۔اسی طرح ہر وہ تعبیر جس سے زنا کا الزام سمجھا جاتا ہے قذف ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو تکویناً و تشریعاً عزت بخشی ہے:

وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ ۔۔۔ (۱۷ بنی اسرائیل: ۷۰)

ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا ہے۔

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ (۹۵ تین: ۴)

بتحقیق ہم نے انسان کو بہترین اعتدال میں پیدا کیا۔

وَ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ ۔۔۔ (۶ تغابن: ۳)

اور اس نے تمہاری صورت بنائی تو بہترین صورت بنائی۔۔

تشریع یعنی قانون کے ذریعے مومن کی عزت و تکریم کی صورت یہ ہے کہ اس کے وقار کو مجروح کرنا حرام ہے۔ خواہ اس خامی کو فاش کر کے ہی کیوں نہ ہو جو اس میں حقیقتاً موجود ہے جسے غیبت کہتے ہیں۔

مؤمن کی عزت وقار کے تحفظ کے سلسلے میں اہم ترین قانون قذف کا قانون ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مؤمن پر زنا کا الزام لگاتا اور چار گواہوں سے ثابت نہیں کر سکتا ہے تو:

i۔ اس پر اسی (۸۰) کوڑے برساؤ: فَاجۡلِدُوۡہُمۡ ثَمٰنِیۡنَ جَلۡدَۃً ۔۔۔

ii۔ ایسے الزام لگانے والوں کی گواہی قبول نہ کرو: وَّ لَا تَقۡبَلُوۡا لَہُمۡ شَہَادَۃً اَبَدًا ۔

iii۔ ایسے لوگ فاسق ہیں: وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مؤمن کا وقار مجروح کرنا کس قدر سنگین جرم ہے۔

اس قسم کی الزام تراشیاں عام ہونے سے زنا کے عام ہونے کا راستہ بھی ہموار ہو جاتا ہے کہ محلے شہر، علاقے میں کہاں کہاں یہ جرم ہو رہا ہے اور کون کون سے لوگ اس جرم میں ملوث ہیں۔ قذف کے مرتکب میں یہ شرائط ہونی چاہئیں:

i۔ بالغ ہو۔ بچہ قذف کرے تو حد نہیں ہے، البتہ تعزیری سزا ہے۔

ii۔ عاقل ہو۔ مجنون کا قذف مؤثر نہیں ہے۔

مقذوف ، جس پر بہتان لگایا گیا ہے اس میں درج ذیل شرائط ہونی چاہئیں:

i۔ بالغ ہو۔ اگر کسی بچے پر الزام لگایا ہے تو تعزیر ہے، حد نہیں ہے۔

ii۔ عاقل ہو۔

iii۔ مسلمان ہو۔ اگر کافر پر الزام لگایا جائے تو حد نہیں تعزیر ہے۔

iv۔ عفت کا مالک ہو۔ اگر زانی مشہور ہو تو حد نہیں ہے۔

v۔ اپنا بیٹا نہ ہو۔ اگر باپ اپنے بیٹے پر الزام لگاتا ہے تو حد نہیں، تعزیرہے۔

حد قذف : قذف کے مرتکب پر حد جاری ہو گی جو اسی(۸۰) کوڑے ہے جو کپڑوں کے اوپر درمیانی طریقہ سے مارے جائیں گے۔ یعنی زنا کی حد میں مارے جانے والے کوڑوں سے کچھ نرم۔ قذف کی حد مقذوف کے مطالبے پر جاری ہوسکتی ہے۔ اگر مقذوف مطالبہ نہ کرے، کسی اور کو حد جاری کرنے کا حق نہیں ہے۔ اگر مقذوف نے ایک مرتبہ معاف کیا ہو تو دوبارہ حد جاری کرنے کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

حد کے مطالبے کا حق جیسے خود مقذوف کو ہے، اس کے وارث کو بھی حق ہے کہ اپنے مرحومین پر قذف کی حد جاری کی جائے۔

۴۔ وَّ لَا تَقۡبَلُوۡا لَہُمۡ شَہَادَۃً اَبَدًا: قذف کرنے والے اب کسی معاملے میں شہادت دینے کے قابل نہ رہے اور نہ ان کی بات قابل وثوق رہی۔ اب لوگوں میں ان کا کوئی اعتبار نہیں رہا۔

۵۔ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ: اب یہ لوگ فاسق اور منحرف شمار ہوں گے۔

واضح رہے قذف کی ایک سزا تو جسمانی ہے، اسی (۸۰) تازیانے۔ دوسری سزا نفسیاتی ہے کہ معاشرے میں بے اعتبار ہو کر رہ جاتے ہیں۔


آیت 4