آیت 144
 

قَدۡ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجۡہِکَ فِی السَّمَآءِ ۚ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبۡلَۃً تَرۡضٰہَا ۪ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ حَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ لَیَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۴۴﴾

۱۴۴۔ ہم آپ کو بار بار آسمان کی طرف منہ کرتے دیکھ رہے ہیں، سو اب ہم آپ کو اسی قبلے کی طرف پھیر دیتے ہیں جسے آپ پسند کرتے ہیں، اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کریں اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو اس کی طرف رخ کرو اور اہل کتاب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق پر مبنی (فیصلہ)ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔

تفسیر آیات

یہودی مسلمانوں پر یہ طنز کرتے تھے کہ تمہارا اپنا کوئی قبلہ نہیں۔ تم ہمارے قبلے کی طرف رخ کرتے ہو، لہٰذا ہمارا مذہب ہی اصل مذہب ہے۔ رسالت مآب(ص) اس بات سے غمزدہ ہو گئے۔ آپ(ص) رات کے وقت بار بار آسمان کی طرف رخ کرتے کہ شاید اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہودیوں کے اس طعنے کا کوئی جواب نازل ہو۔ چنانچہ ایک دن نماز ظہر کے دوران جبرائیل(ع) نازل ہوئے اور رسول خدا (ص) کو بازوؤں سے پکڑ کر آپ (ص) کا رخ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف پھیر دیا۔ ساتھ ہی مسلمانوں نے بھی اپنی صفوں کا رخ بدلا، عورتوں نے اپنی جگہ مردوں کو اور مردوں نے اپنی جگہ عورتوں کو دے دی۔ چونکہ بیت المقدس مدینے کے شمال میں اور کعبہ جنوب میں ہے، اس لیے امام اور مقتدیوں کو رخ بدلنے کے لیے صفیں نئے سرے سے مرتب کرنی پڑیں۔

رسول (ص)کا انتظار: نبی اکرم (ص) کو علم تھا اور اہل کتاب بھی جانتے تھے کہ رسول آخر الزمان(ص) دو قبلوں کی طرف نماز پڑھیں گے۔ یصلی الی القبلتین ۔ نسل ابراہیمی(ع) کی طرف امامت کی منتقلی اور یہودیوں کے طعنوں کے پیش نظر ضروری تھا کہ قبلے کو تبدیل کر دیا جائے۔

پسندیدہ قبلہ: کعبہ کو اللہ تعالیٰ نے حضور (ص) کا پسندیدہ قبلہ قرار دیا، چنانچہ فرمایا: ’’ اب ہم آپ (ص) کو اسی قبلے کی طرف پھیر دیتے ہیں جسے آپ(ص) پسند کرتے ہیں‘‘۔ اس سے پہلے مکہ میں نازل ہونے والے سورہ ضحی میں وعدہ فرمایا تھا:

وَ لَسَوۡفَ یُعۡطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرۡضٰی {۹۳ ضحی: ۵}

اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔

اہم نکات

۱۔ یہ مقام مصطفی (ص) ہے کہ پروردگار آپ (ص) کی رضا کو مدنظر رکھتا ہے: فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبۡلَۃً تَرۡضٰہَا ۔۔۔۔

۲۔ تحویل قبلہ مسلمانوں کے تہذیبی تشخص کی علامت ہے۔

تحقیق مزید: التہذیب ۲ : ۲۸۶، الوسائل ۴ : ۳۰۱، فقہ القرآن ۱ : ۹۱۔


آیت 144