آیت 141
 

تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡـَٔلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۴۱﴾٪

۱۴۱۔ یہ امت گزر چکی ہے، ان کے اعمال ان کے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے اور تم سے (گزشتہ امتوں کے بارے میں)نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔

تفسیر آیات

اسلاف کے اعمال سے امیدیں وابستہ رکھنے اور خود بدعمل ہونے کی یہ روش اتنی عام تھی کہ آیت ۱۳۴ کے بعد دوسری مرتبہ پھر تاکید کے ساتھ وہی مطلب بیان فرمایا گیا ہے۔

علامہ علی نقی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

اس سے ان مسلمانوں کو بھی سبق لینے کی ضرورت ہے جو صرف بزرگان دین کی طرف انتساب کو ذریعہ نجات خیال کرتے ہیں اور ان کی اتباع اور عملی پیروی کی اہمیت کا احساس نہیں کرتے۔

اہم نکات

۱۔ الٰہی دعوت کے بانی، تحریک توحید کے مؤسس اور ابو الانبیاء (ع) ہونے کے اعتبار سے حضرت ابراہیم (ع) تمام ادیان کے لیے سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔اسی لیے تمام سماوی ادیان ان کی عظمت و حقانیت پر متفق ہیں اور اپنی حقانیت کی سند کے طور پر حضرت ابراہیم (ع) سے اپنے انتساب کو حجت اور برہان سمجھتے ہیں۔

۲۔ یہودیوں کی طرح صرف اسلاف کی طرف انتساب کو ہی ذریعہ نجات سمجھنا بھی دین سے انحراف کی ایک صورت ہے۔


آیت 141