آیت 40
 

یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ اُوۡفِ بِعَہۡدِکُمۡ ۚ وَ اِیَّایَ فَارۡہَبُوۡنِ﴿۴۰﴾

۴۰۔ اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا ہے اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور تم لوگ صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔

تشریح کلمات

بن:

یہ لفظ بناء سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ بیٹا باپ کی زندگی پر مبنی ہوتا ہے۔

اِسۡرَآءِیۡلَ:

یہ عبری لفظ ہے۔ اسر یعنی بندہ اور ایل سے مراد اللہ ہے۔ لہٰذا اسرائیل کا مطلب ’بندۂ خدا ‘ ہوا۔ یہ حضرت یعقوب اور اسحاق علیہما السلام کا لقب تھا۔

ایک امریکی دانشور مسٹر ہیکس اپنی کتاب قاموس کتاب مقدس میں لکھتا ہے:

اسرائیل کا مطلب ’خدا پر جیت حاصل کرنے والا ‘ ہے۔ حضرت یعقوب بن اسحاق علیہما السلام فرشتہ خدا کے ساتھ کشتی لڑنے کے بعد اس نام سے ملقب ہوئے۔ {پرتوی از قرآن ۱ : ۱۳۸}

یہودیوں کے نزدیک اسرائیل کا معنی ’ بطل اللہ ‘ ہے اور یہ اس روایت پر مبنی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت یعقوب (ع) نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کشتی لڑی تھی۔

اذۡکُرُوۡا:

( ذ ک ر ) ذکر۔ یاد کرنا، توجہ دینا، زبان پر کسی چیز کا لانا۔

وَ اَوۡفُوۡا:

( و ف ی ) وفاء۔ وفا کرنا، عہد پورا کرنا، عہد و پیمان کا تحفظ کرنا۔ اس کی ضد غدر یعنی غداری ہے۔

فَارۡہَبُوۡنِ:

( ر ھ ب ) رھب ۔ کسی کی عظمت کے سامنے خشوع کے ساتھ خوف لاحق ہونا۔ اس کی ضد رغبت ہے۔

تفسیر آیات

یہودیوں سے یہ خطاب بطور ملامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مختلف نعمتوں سے نوازا، آل فرعون سے انہیں نجات دی، ان کے لیے دریا کو شق کیا، ان کے دشمن مبین فرعون اور اس کے لشکر کو غرق آب کیا، انبیاءؑ و ملوک ان میں بھیجے، پوری دنیا کے باسیوں پر انہیں فضلیت دی، وعدہ گاہِ طور کے بعد گوسالہ پرستی سے بھی انہیں نجات دی اور اس قبیل کی بے شمار نعمتیں انہیں عطا کیں۔ لیکن اولاد اسرائیل نے انہیں فراموش کر دیا اور انہیں اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم سمجھنے کی بجائے ایک نسلی حق تصور کیا اور یہ عقیدہ اختیار کیا: نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ ۔ {۵ مائدہ : ۱۸} ”ہم اللہ کے فرزند ہیں۔۔۔۔“ چنانچہ موجودہ تحریف شدہ بائبل میں بھی یہ بات موجود ہے: ”خدا نے یوں فرمایا ہے: اسرائیل میرا بیٹا بلکہ پہلوٹا ہے۔“ {خروج ۴ : ۲۲}

اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ: یہ خطاب بھی بنی اسرائیل سے ہے کہ پہلے تم میرا عہد پورا کرو تو میں بھی تمہارا عہد پورا کروں گا۔

تمام امم میں یہ سنت کار فرما رہی ہے کہ جب تک انہوں نے اللہ کے عہد کی پاسداری نہیں کی تو اللہ نے بھی بلا استحقاق انہیں کچھ نہیں دیا: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ۔ {۱۳ رعد: ۱۱۔ اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں} لہٰذا اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ اور اُوۡفِ بِعَہۡدِکُمۡ کے درمیان عوض و معوض کا نہیں بلکہ علت و معلول کا ربط ہے۔

بنی اسرائیل سے یہ خطاب بھی بعنوان ملامت و تعریض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد و پیمان لیے مگر بنی اسرائیل نے ان میں سے کسی ایک عہد کی بھی پاسداری نہیں کی۔

وَ اِیَّایَ فَارۡہَبُوۡنِ: خوف اگر کسی ذات کی عظمت و جلالت کے تصور سے لاحق ہو تو اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت لامتناہی ہے اور اگر خوف کسی طاقت سے ہو تو اللہ تعالیٰ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ہے اور اگر کسی سے اس لیے خوف آتا ہے کہ وہ راز ہائے درونی سے آگاہ ہے تو بھی اللہ تعالیٰ ہی تمام پوشیدہ رازوں سے آگاہ ہے۔

صرف خدا ہی سے خوف رکھنا، یعنی تمام مصلحتوں اورمفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اللہ کی ذات کو سامنے رکھا جائے۔ اگر خوف خدا دل میں ہو تو کوئی دوسرا خوف دل میں جاگزیں نہیں ہو سکے گا، کیونکہ یہ ایسا خوف ہے جو انسان کو ہزار قسم کے خوف سے نجات دیتا ہے۔


آیت 40