آیت 37
 

فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ﴿۳۷﴾

۳۷۔ پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے تو اللہ نے آدم کی توبہ قبول کر لی، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔

تشریح کلمات

تلقی:

( ل ق ی ) پانا۔ دریافت کرنا۔ سیکھنا اَخْذُ الْکَلَامِ مَعَ فَہْمٍ وَ فِقْہٍ۔ {المیزان ۱ :۱۳۳}

کلمات:

( ک ل م )کلمہ کی جمع ہے۔ کلمہ وہ لفظ ہے جو کسی معنی پر دلالت کرے۔ یہ کلم سے ماخوذ ہے۔ یعنی زخم لگانا۔ جس طرح ہاتھ سے برائے اثر زخم لگایا جاتا ہے، بالکل اسی طرح زبان سے بھی برائے اثر لفظ ادا کیا جاتا ہے۔

الکلم:

التَّاثِیْرُ الْمُدْرَکُ بِاِحْدَی الْحَاسَّتَیْن (راغب) کلم اس اثر کو کہتے ہیں جو سمعی و بصری حواس کے ذریعے سمجھا جائے۔ کلام کو سمعی اور کلم کو بصری حواس کے ذریعے سمجھا جاتا ہے۔

تاب:

( ت و ب ) اس لفظ کے ساتھ الیہ اور علیہ لگانے سے مختلف معانی حاصل ہوتے ہیں۔ تاب الیہ یعنی اس نے فلاں کے حضور توبہ کی یا توجہ کی۔ تاب علیہ اس نے فلاں کی توبہ قبول کی یا اس پر رحم کیا۔

تفسیر آیات

حضرت آدم(ع) کو جن کلمات کی تعلیم دی گئی ان کے بارے میں متعدد اقوال ہیں:

۱۔ یہ وہ کلمات ہیں جن کا خود خداوند عالم نے سورۂ اعراف میں ذکر فرمایا ہے:

رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜوَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ {اعراف ۷ : ۲۳۔}

پروردگارا! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

۲۔سیوطی نے در منثور میں ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق کلمات سے مراد ذات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

۳۔نیز در منثور میں ہی دیلمی سے ایک طویل روایت میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا :حضرت آدم (ع)نے یہ کلمات سیکھے تھے:

اَللّٰھَمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَّ آٰلِ مَحَمَّدٍ سُبْحَانَکَ لَا اِلَہَ اِلَّا اَنْتَ عَمِلْتُ سُوْء اً وَ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمْ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ۔ سُبْحَانَکَ لَا اِلَہَ اِلَّا اَنْتَ عَمِلْتُ سُوْء اً وَ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَتُبْ عَلَیَّ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم۔ {الدر المننثور ۱ : ۱۱۹}

اے اللہ میں محمد و آل محمد کے حق کا واسطہ دے کر تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ پاک و منزہ ہے تیری ذات۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں نے برا کیا اور اپنے نفس پر ظلم کیا پس مجھے بخش دے بے شک تو غفور و رحیم ہے۔ اے اللہ میں محمد و آل محمد کے حق کا واسطہ دے کر تجھ سے التجا کرتا ہوں۔ پاک و منزہ ہے تیری ذات۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں نے برا کیا اور اپنے آپ پر ظلم کیا۔ پس میری توبہ قبول فرما۔ بیشک تو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔

۴۔ نیز در منثور میں ابن نجار نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول خدا (ص) سے ان کلمات کے بارے میں سوال کیا جن کی وجہ سے آدم(ع) کی توبہ قبول ہوئی تو آپ (ص) نے فرمایا:

سَألَ بِحَقِّ محمد و علی و فاطمۃ و الحسن و الحسین اِلَّا تُبْتَ عَلَیَّ فَتَابَ عَلَیْہِ۔ {الدر المننثور ۱ : ۱۱۹}

آدم نے محمد علی فاطمہ حسن اور حسین علیہم السلام کا واسطہ دے کر سوال کیا کہ میری توبہ قبول کی جائے۔ چنانچہ ان کی توبہ قبول ہوئی۔

۵۔ شیخ صدوق کی روایت کے مطابق کلمات سے مراد محمد (ص)، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام ہیں۔

یہ اقوال قابل جمع ہیں۔ کیونکہ کلمات کا اطلاق الفاظ پر بھی ہوتا ہے اور ذوات پر بھی۔ ممکن ہے کہ حضرت آدم(ع) نے دعائیہ کلمات کے ساتھ ذوات مقدسہ کو بھی شفیع بنایا ہو۔ چنانچہ ذوات مقدسہ کو بھی اسی بنا پر کلمۃ کہا گیا ہے، جس طرح حضرت عیسیٰ بن مریم (ع) کو کلمۃ کہا گیا۔ وَ کَلِمَتُہٗ ۚ اَلۡقٰہَاۤ اِلٰی مَرۡیَمَ {۴ نساء : ۱۷۱} دوسری جگہ فرمایا: بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ ٭ۖ اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ ۔۔۔۔ {۳ آل عمران : ۴۵}

کلمات سیکھنے کی نسبت حضرت آدم(ع) کی طرف دی گئی ہے۔ کیونکہ توبہ و انابت کی اولین شرط یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں رجوع کرے۔ سعی و کوشش بندے کی طرف سے ہو تو اللہ کی طرف سے توفیق ملتی ہے اور توفیق کا مطلب یہ ہے کہ اس کام کے لیے ممکنہ وسائل میسر آ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (ع) کو توفیق دی کہ وہ توبہ کرنے کے لیے ممکنہ وسیلہ و ذریعہ تلاش کریں۔ چنانچہ وسیلہ ملنے کے بعد انہوں نے توبہ کی: فَتَابَ عَلَیۡہِ ۔ پھر ان کی توبہ قبول ہوئی۔

اہم نکات

۱۔ توفیق خداوندی کے بغیر توبہ نہیں ہوسکتی۔

۲۔ فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ سے یہ ثابت ہے کہ ما ذون من اللہ ہستیوں کو وسیلہ بنانا درست ہے۔

تحقیق مزید:

الکافی ۸ : ۳۰۴۔ الوسائل ۷: ۹۸۔ الدر المنثور ۱: ۱۱۶۔ معانی الاخبار ص ۱۲۵۔ المستدرک ۵: ۲۲۸۔ تفسیر فرات ص ۵۷


آیت 37