آیت 36
 

فَاَزَلَّہُمَا الشَّیۡطٰنُ عَنۡہَا فَاَخۡرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیۡہِ ۪ وَ قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ﴿۳۶﴾

۳۶۔پس شیطان نے ان دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا، پھر جس (نعمت) میں وہ دونوں قیام پذیر تھے اس سے ان دونوں کو نکلوا دیا اور ہم نے کہا: (اب) تم ایک دوسرے کے دشمن بن کر نیچے اتر جاؤ اور ایک مدت تک زمین میں تمہارا قیام اور سامان زیست ہو گا۔

تشریح کلمات

ازل:

( ز ل ل ) یعنی لغزش، پھسلنا، راہ حق سے منحرف ہونا۔

اہۡبِطُوۡا:

( ھ ب ط ) ھبوط نیچے اترنا، پست ہونا، پہلے سے بدتر حالت میں آنا۔

مُسۡتَقَرٌّ:

( ق ر ر ) ٹھکانا، استقرار کی جگہ۔

مَتَاعٌ :

( م ت ع ) فائدہ اٹھانا۔

تفسیرآیات

حضرت آدم (ع) کو اللہ تعالیٰ نے زمین پربسانے کے لیے ہی خلق فرمایا تھا۔ چنانچہ شروع میں ہی فرمایا: اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ۔ پھر اس خلیفہ ارضی کو زمین پر بسانے سے پہلے درج ذیل مختلف مراحل سے گزارا:

۱۔ آدم (ع) کو ملائکہ پر فضیلت بخشی اور اَنْۢبَاَھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕہِمْ کے ذریعے انہیں معلم ملائکہ بنایا۔

۲۔ ان کے مقام و مرتبے کا اعتراف لینے کے لیے فرشتوں کو ان کے سامنے جھکایا۔

۳۔ چونکہ یہ نئی ارضی مخلوق ارتقا و تکامل کی استعداد رکھتی تھی اس لیے اسے ایک پر نعمت باغ میں آزمائش کے لیے بھیج دیا اور وہاں شجرہَ ممنوعہ کے ذریعے اسے آزمایا گیا۔

۴۔ میدان امتحان میں ایک عیار دشمن سے اس کا سامنا کرایا۔ اپنے ازلی دشمن سے ناواقف اس نئی مخلوق کے لیے یہ مرحلہ قانونِ ارتقا کی ایک لازمی شق کے طور پر ضروری تھا، کیونکہ چالاک دشمن یہ جانتا تھا کہ اس نئی مخلوق کی سرشت اور فطرت میں حصول کمال اور بقا کی خواہش موجود ہے۔ چنانچہ اس نے آدم کو ان کی فطری خواہشات کے مطابق درج ذیل چیزوں کے لالچ میں مبتلا کیا:

الف: خلود یعنی حیات ابدی: مَا نَہٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنۡ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَا مَلَکَیۡنِ اَوۡ تَکُوۡنَا مِنَ الۡخٰلِدِیۡنَ ۔ {۷ اعراف: ۲۰} ’’تمہارے رب نے تمہیں اس درخت سے صرف اس لیے منع کیا ہے کہ مبادا تم فرشتے بن جاؤ یا زندہ جاوید بن جاؤ۔‘‘

ب: حکومت و سلطنت: ابلیس نے کہا : ہَلۡ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الۡخُلۡدِ وَ مُلۡکٍ لَّا یَبۡلٰی ۔ {۲۰ طہٰ: ۱۲۰} کیا میں تمہیں ہمیشگی کے درخت اور لازوال سلطنت کے بارے میں بتاؤں؟

۵۔ سترپوشی کا فقدان: بظاہرشجرممنوعہ سے کھانے کا طبعی نتیجہ تھاکہ حضرت آدم (ع) اور حضرت حوا کو ستر پوشی کی ضرورت پیش آئی۔ ہو سکتا ہے کہ ستر پوشی حیوانی خواہشات سے عبارت ہو۔ فَھُوَ التَّمَایُلُ الْحَیَوَانِیْ و یَسْتَلْزِمُ التَّغَذِّیَّ وَ النُّمُوَّ {المیزان ۱ : ۱۲۷} اور آدم (ع) کو حیوانی خواہشات میں مبتلا دیکھنے کے لیے ہی شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا تھا۔ چنانچہ ارشاد قدرت ہے:

فَوَسۡوَسَ لَہُمَا الشَّیۡطٰنُ لِیُبۡدِیَ لَہُمَا مَا وٗرِیَ عَنۡہُمَا مِنۡ سَوۡاٰتِہِمَا {۷ اعراف : ۲۰}

پھر شیطان نے انہیں بہکایا تاکہ اس طرح ان دونوں کے شرم کے مقامات جو ان سے چھپائے رکھے گئے تھے ان کے لیے نمایاں ہو جائیں۔

اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان کامقصد آدم (ع) کو ستر پوشی کے فقدان کا احساس دلانایعنی خواہشات میں مبتلا کرنا تھا۔

شجر ممنوعہ کا نتیجہ: حضرت آدم(ع) کو نافرمانی کی سزا کے طور پر زمین کی طرف روانہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ زمین پر بسنا اس پھل کے کھانے کا لازمی اور طبعی نتیجہ تھا۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:

فَقُلۡنَا یٰۤـاٰدَمُ اِنَّ ہٰذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَ لِزَوۡجِکَ فَلَا یُخۡرِجَنَّکُمَا مِنَ الۡجَنَّۃِ فَتَشۡقٰی {۲۰ طہٰ : ۱۱۷}

اے آدم! یہ آپ اور آپ کی زوجہ کا دشمن ہے، کہیں یہ آپ دونوں کو جنت سے نکال نہ دے، پھر آپ مشقت میں پڑ جائیں گے۔

ممنوعہ درخت سے پھل کھا کر آدم (ع) نے اپنے آپ کو دنیا کی پرمشقت زندگی میں ڈال دیا۔ چنانچہ ارشاد قدرت ہے:

وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ {۲ بقرہ : ۳۵}

اور اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم دونوں زیادتی کا ارتکاب کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر حضرت آدم(ع)کو نافرمانی کی سزا کے طور پر زمین کی طرف بھیجا گیا ہوتا تو ضروری تھا کہ توبہ قبول ہونے کے بعد انہیں واپس جنت میں بھیج دیا جاتا، حالانکہ ایسا نہیں ہوا، بلکہ توبہ قبول ہونے کے بعد بھی آدم(ع) زمین پر ہی رہے۔ اس سے پتہ چلا کہ پھل کھانے کا ذاتی اثر ارضی زندگی گزارنا تھا۔

بنابریں واضح ہوا کہ حضرت آدم (ع) سے جو خطا سرزد ہوئی وہ اللہ کے تشریعی حکم کی نافرمانی نہ تھی، بلکہ انہوں نے اللہ کے ارشادی اور تکوینی حکم کی خلاف ورزی کی تھی، جس کا نتیجہ ظلم بنفس تھا۔

وضاحت: حکم دو قسم کے ہوتے ہیں:

۱۔ شرعی یا تشریعی

۲۔ ارشادی یا تکوینی

حکم شرعی: قانونی حاکم اور مولا کی طرف سے جو حکم دیا جائے، وہ شرعی حکم کہلاتا ہے۔ جیسے نماز، روزے وغیرہ کا حکم۔ ایسے حکم کی خلاف ورزی مولاکی نافرمانی تصور ہوگی اور اس پر عذاب ہوگا۔ کیونکہ یہ نافرمانی گناہ محسوب ہوتی ہے اور پیغمبروں کے لیے خلاف عصمت ہے

حکم ارشادی: اس کی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، بلکہ یہ ایک نصیحت کے طور پر ہوتا ہے اور امر واقع کی نشاندہی کے لیے دیا جاتا ہے۔ جس طرح ایک طبیب مضر صحت چیزوں کی نشاندہی کرکے ان سے پرہیز کا ناصحانہ حکم دیتا ہے۔ ایسے حکم کی خلاف ورزی کا نتیجہ طبیعی طور پر خود بخود سامنے آجاتا ہے، جسے شرعی سزا نہیں بلکہ فطری ردعمل کہتے ہیں۔

حضرت آدم (ع) کو اللہ نے نصیحت فرمائی تھی کہ شجرۂ ممنوعہ سے تناول کرنے کے نتیجے میں پرمشقت زمینی زندگی گزارنا ہو گی۔ چنانچہ فوسوس اور لیبدی میں عمل اور رد عمل کا ربط معلوم ہوتا ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔

اس وضاحت سے ایک سوال کا جواب خود بخود واضح ہو جاتا ہے کہ آدم (ع) نے نبی اور معصوم ہونے کے باوجود گناہ کا ارتکاب کیوں کیا؟

اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ زیر بحث واقعہ جنت میں پیش آیا تھا جو دارالتکلیف نہیں ہے۔ یعنی تشریعی تکلیف۔ چنانچہ جب حضرت آدم(ع) کو خداوند عالم نے زمین پر بسایا اور انہیں رسول اور حجت بنایا تواس کے بعد ان سے کبھی گناہ سرزد نہیں ہوا: اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا ۔۔۔۔ {۳ آل عمران : ۳۳}

وَ قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا: ہبوط کا ظاہری معنی ’’ اونچی جگہ سے نیچے کی طرف آنا ‘‘ ہے۔ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ آدم (ع)کی جنت اگرچہ جنت الخلد نہ تھی، لیکن زمین پر بھی نہ تھی۔ ممکن ہے یہ جنت کسی اور کرّے پر ہو اور وہاں سے حضرت آدم (ع) کو زمین پر اتارا گیا ہو۔

اہۡبِطُوۡا میں آدم (ع) و حوا کے ساتھ ابلیس بھی شامل ہے۔ یعنی مجموعی طور پر ایک دوسرے سے دشمنی، نزاع اور خصومت ہو گی۔ اختلاف و خصومت اس ارضی زندگی کا لازمہ ہے۔ کیونکہ یہاں اجتماعی زندگی گزارنا ہو گی اوراجتماعیت کا نتیجہ خصومت ہے۔ لہٰذا ہبوط، اجتماعیت اور دشمنی باہم مربوط ہیں۔

مُسۡتَقَرٌّ،مَتَاعٌ اور حِیۡنٍ کو اضافت کے بغیر ذکرکیا گیا ہے۔ شاید مفہوم یہ بنتا ہو کہ ارضی زندگی یعنی مستقر بیقرار، متاع ناپائدار اور مدت نامعلوم۔

حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر بسانے سے پہلے دو دشمنوں سے آگاہ کیا گیا۔ ایک داخلی دشمن جو نفسانی خواہشات ہے اور ایک بیرونی دشمن ابلیس۔ ساتھ ہی یہ درس بھی یاد کرایا کہ بیرونی دشمن داخلی دشمن (خواہشات) کے ذریعے حملہ آور ہوتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ روئے زمین پر انسانی زندگی چند روزہ اور عارضی ہے۔

۲۔ انسان کامقام جتنا بلند ہوگا، شیطانی وسوسوں کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

۳۔ حکم شرعی (تشریعی) کی مخالفت، گناہ اور عصمت کے منافی ہے۔ لیکن امر تکوینی (ارشادی) کی مخالفت گناہ نہیں۔ لہٰذا عصمت کے منافی نہیں ہو گی۔

۴۔ انسان اپنی فطری صلاحیتوں کی بنا پر بہشتی ہے۔ البتہ خلاف ورزیاں اس کے سقوط کا سبب بنتی ہیں۔

۵۔ بے حجابی شیطانی حربہ ہے، جس سے وہ انسانوں کو گمراہ کرتا ہے۔

۶۔ پرمشقت ارضی زندگی گزارناحضرت آدم ؑکی سزا نہ تھی بلکہ پھل کھانے کا طبعی اور ذاتی اثر تھا۔


آیت 36