آیت 35
 

وَ قُلۡنَا یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنۡہَا رَغَدًا حَیۡثُ شِئۡتُمَا ۪ وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اور ہم نے کہا: اے آدم! تم اور تمہاری زوجہ جنت میں قیام کرو اور اس میں جہاں سے چاہو فراوانی سے کھاؤ اور اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم دونوں زیادتی کا ارتکاب کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔

تشریح کلمات

رَغَدًا:

(رغ د) عیش رغد۔ آرام و سکون کی زندگی۔

ظالم:

(ظ ل م ) ظلم۔ مقررہ حد سے تجاوز کرنا۔ زیادتی کرنا۔ وضع الشییء فی غیر محلہ کسی شے کو اس کا جائز مقام نہ دینا۔

تفسیرآیات

جنت آدم: حضرت آدم (ع)کی جنت کے بارے میں تین اقوال ہیں:

۱۔ یہ وہی جنت خلد ہے جس کا مؤمنین سے وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ نظریہ اس لیے درست نہیں ہے :

اولاً :جنت، خلد، ابدی جگہ ہے۔ وہاں داخل ہونے کے بعد نکالے جانے کا کوئی تصور نہیں۔

ثانیاً : جنت خلد اعمال کی جزاء کے نتیجے میں ملتی ہے۔ جب کہ حضرت آدم(ع) کو کسی عمل کی جزا میں جنت نہیں ملی تھی۔

ثالثاً: احادیث سے بھی ثابت ہے کہ وہ جنت خلد نہ تھی۔

رابعاً : اگر جنت خلد ہوتی تو ابلیس شجرۃ الخلد کا بہانہ نہ بنا سکتا۔

۲۔ دنیا کے باغات میں سے ایک سرسبز باغ تھا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (ع) کے لیے خلق فرمایا تھا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

جَنَّۃٌ مِنْ جَنَّاتِ الدُّنْیَا تَطْلَعُ فِیْہَا الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ لَوْکَانَت مِنْ جَنَّاتِ الْخُلْدِ مَا خَرَجَ مِنْہَا اَبَداً۔ {علل الشرایع ۲ : ۶۰۰}

یہ دنیا کے باغات میں سے ایک باغ تھا جس میں آفتاب اور ماہتاب طلوع ہوا کرتا تھا۔ اگر آخرت کی جنت ہوتی تو وہاں سے نکالے نہ جاتے۔

۳۔ وَ ھٰذَا لَا یَسْتَلْزِمُ کَوْنَھَا فِی الْاَرْضِ {تفسیر آلاء الرحمن، ذیل آیہ۔} دنیا کی جنت ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ جنت زمین پر ہی تھی۔ ہو سکتا ہے کسی اور کرہ پر ہو۔ کیونکہ اگر کرہ ارض پر ہوتی تو اگلی آیت میں اہۡبِطُوۡا کا لفظ استعمال نہ ہوتا۔ چنانچہ یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جنت کسی اور کرہ پر تھی۔

وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ: اس درخت کے نزدیک نہ جانا۔ یہ نہی ارشادی اور تاکید کے لیے ہے۔ کیونکہ جب نزدیک جانا ممنوع ہے تو اسے کھانا بطریق اولیٰ ممنوع ہو گا۔ جس طرح یتیم کے مال کے بارے میں حکم ہے: وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ ۔۔۔۔ {۶ انعام : ۱۵۲} اور یتیم کے مال کے نزدیک بھی نہ جانا۔

اس بات کی بحث کوئی خاص نتیجہ خیز نہیں کہ یہ درخت کس چیز کا تھا۔ البتہ اس درخت سے کھانے کے اثرات کے بارے میں چند اقوال ہیں:

شجرۃ المونۃ : توریت نے اس درخت کو شجرہ مونہ سے تعبیر کیا ہے۔ کیونکہ اس کا پھل تناول کرنے کے بعد آدم (ع) میں نیک و بد کی تمیز آگئی اور وہ اپنی عریانی سے آگاہ ہوئے۔

یہ بات اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ناقابل قبول ہے۔ کیونکہ یہ امر غیر ممکن ہے کہ فرشتوں کے معلم و استاد کو اپنی عریانی کا علم و شعور بھی نہ ہو۔

شجرۃ الخلد: ابلیس نے حضرت آدم(ع) کو یہ کہ کر وسوسے میں ڈالا کہ یہ شجرۃ الخلد ہمیشگی کا درخت ہے:

فَوَسۡوَسَ اِلَیۡہِ الشَّیۡطٰنُ قَالَ یٰۤـاٰدَمُ ہَلۡ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الۡخُلۡدِ وَ مُلۡکٍ لَّا یَبۡلٰی {۲۰ طہٰ: ۱۲۰}

پھر شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا اور کہا: اے آدم! کیا میں تمہیں ہمیشگی کے درخت اور لازوال سلطنت کے بارے میں بتاؤں؟

اس آیہ شریفہ میں تین احکام ہیں: اسۡکُنۡ، وَ کُلَا، وَ لَا تَقۡرَبَا ، قیام کرو، کھاؤ، درخت کے نزدیک مت جاؤ۔ پہلے دو حکم ارشادی ہیں، لہٰذا تیسرا حکم بھی ارشادی ہی ہے۔ حکم ارشادی کی وضاحت عنقریب آئے گی۔

اہم نکات

۱۔ جنت مقام عمل نہیں، بلکہ جزائے عمل ہے۔ پس آدمؑ کی جنت جنۃ الخلد نہ تھی۔

۲۔ صحیح راستوں کی نشاندہی کے بعد ہی ممنوعہ امور پر پابندی لگائی جاتی ہے۔

۳۔ حیات جاوید کی خواہش فطری ہے۔ شیطان نے اسی فطری خواہش سے غلط فائدہ اٹھا کر وسوسہ پیداکیا۔

تحقیق مزید:

تفسیر القمی ۱: ۴۳۔ العیون ۱: ۱۹۵۔ الکافی ۳: ۲۴۷


آیت 35