آیات 32 - 33
 

قَالُوۡا سُبۡحٰنَکَ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ﴿۳۲﴾

۳۲۔ فرشتوں نے کہا: تو پاک و منزہ ہے جو کچھ تو نے ہمیں بتا دیا ہے ہم اس کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ یقینا تو ہی بہتر جاننے والا، حکمت والا ہے۔

قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنۡۢبِئۡہُمۡ بِاَسۡمَآئِہِمۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَنۡۢبَاَہُمۡ بِاَسۡمَآئِہِمۡ ۙ قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکُمۡ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ غَیۡبَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۙ وَ اَعۡلَمُ مَا تُبۡدُوۡنَ وَ مَا کُنۡتُمۡ تَکۡتُمُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ (اللہ نے) فرمایا: اے آدم! ان (فرشتوں) کو ان کے نام بتلا دو، پس جب آدم نے انہیں ان کے نام بتا دیے تو اللہ نے فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں خوب جانتا ہوں نیز جس چیز کا تم اظہار کرتے ہو اور جو کچھ تم پوشیدہ رکھتے ہو، وہ سب جانتا ہوں۔

تفسیر آیات

فرشتوں نے اپنی عاجزی اور لا علمی کا اظہار کیا اور ضمناً آدم ؑکی فضیلت کا اقرار بھی۔ چنانچہ جواب میں بولے: سُبۡحٰنَکَ ۔ یہ توبہ و استغفار کا مقام ہے۔ تو ہر اس چیز سے پاک و منزہ ہے جو قبیح، نامناسب اور خلاف عدل ہو۔ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا یوں اپنی کم مائیگی کا اعتراف بھی کیا۔

قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنۡۢبِئۡہُمۡ بِاَسۡمَآئِہِمۡ ۔ چنانچہ حضرت آدم ؑنے فرشتوں کو ان کے نام بتا دیے اور استاد ملائکہ ثابت ہوئے۔ کیونکہ فرشتوں کو یہ نام یا یہ پوشیدہ راز خداوند عالم نے خود نہیں سکھائے، بلکہ حضرت آدم (ع) نے بحکم خدا یہ نام انہیں سکھا دیے۔

یہاں سے خلافت الٰہیہ کے فرائض کا آغاز ہوا اور یہ رسالت، تعلیم ملائکہ سے شروع ہوئی۔ اس طرح یہ بات بھی سامنے آئی کہ خلافت الٰہیہ کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ تعلیم و تربیت ہے نیز یہ نکتہ بھی واضح ہوا کہ خلافت الٰہیہ کے شعبۂ تعلیم و تربیت کا دائرہ انسان، جنات اور ملائکہ تک کو شامل ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کے خلیفہ کا علم فرشتوں کے علم سے زیادہ ہوتا ہے، بلکہ وہ فرشتوں کا معلم ہوتا ہے۔

۲۔ تسبیح و تقدیس توبہ و استغفار کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔

۳۔ تعلیم و تربیت خلافت الٰہیہ کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔

۴۔ خلافت الہٰیہ کے شعبۂ تعلیم و تربیت کا دائرہ انسان، جنات اورملائکہ سب کو شامل ہے۔


آیات 32 - 33