آیت 49
 

وَ وُضِعَ الۡکِتٰبُ فَتَرَی الۡمُجۡرِمِیۡنَ مُشۡفِقِیۡنَ مِمَّا فِیۡہِ وَ یَقُوۡلُوۡنَ یٰوَیۡلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الۡکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً اِلَّاۤ اَحۡصٰہَا ۚ وَ وَجَدُوۡا مَا عَمِلُوۡا حَاضِرًا ؕ وَ لَا یَظۡلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا﴿٪۴۹﴾

۴۹۔ اور نامۂ اعمال (سامنے) رکھ دیا جائے گا، اس وقت آپ دیکھیں گے کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر ڈر رہے ہیں اور یہ کہ رہے ہیں: ہائے ہماری رسوائی! یہ کیسا نامۂ اعمال ہے؟ اس نے کسی چھوٹی اور بڑی بات کو نہیں چھوڑا (بلکہ) سب کو درج کر لیا ہے اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ ان سب کو حاضر پائیں گے اور آپ کا رب تو کسی پر ظلم نہیں کرتا۔

تشریح کلمات

مُشۡفِقِیۡنَ:

( ش ف ق ) الاشفاق کسی کی خیر خواہی کے ساتھ اس پر تکلیف آنے سے ڈرنا۔

تفسیر آیات

وَ وُضِعَ الۡکِتٰبُ: میں الۡکِتٰبُ سے مراد نامہ اعمال ہے چونکہ عرف میں الۡکِتٰبُ اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو۔ خواہ کسی کاغذ پر لکھا ہوا جیسے قرآن آیا ہے:

وَ لَوۡ نَزَّلۡنَا عَلَیۡکَ کِتٰبًا فِیۡ قِرۡطَاسٍ ۔۔۔۔ ( ۶ انعام: ۷)

اور (اے رسول) اگر ہم کاغذ پر لکھی ہوئی کوئی کتاب (بھی) آپ پر نازل کرتے۔۔۔۔

خواہ دستور اور قانون میں درج ہو:

وَ کَتَبۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡہَاۤ اَنَّ النَّفۡسَ بِالنَّفۡسِ ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۴۵)

اور ہم نے توریت میں ان پر (یہ قانون) لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان۔۔۔۔

خواہ تقدیر و تکوین میں درج ہو جیسے

قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ۔۔۔ (۹ توبہ: ۵۱)

کہدیجیے: اللہ نے جو ہمارے لیے مقدر فرمایا ہے۔۔

یہاں الۡکِتٰبُ سے مراد وہ مندرجات بھی ہو سکتے ہیں جس میں انسان کے تمام اعمال و گفتار ثبت ہیں۔ جیسے فرمایا:

بَلٰی وَ رُسُلُنَا لَدَیۡہِمۡ یَکۡتُبُوۡنَ (۴۳ زخرف۔ ۸۰)

ہاں ! اور ہمارے فرستادہ (فرشتے) ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں۔

ہاں! ہمارے فرشتے ان کے پاس لکھ رہے ہیں۔ ثبت کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ اس میں رائے زنی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ جب لوح کائنات میں کسی عمل یا گفتار کو ثبت فرماتا ہے تو اس کا ہمارے طریقہ ثبت کے ساتھ موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔ہم کائنات کو اس طرح مسخر نہیں کر سکتے جس طرح اللہ مسخر کر سکتا ہے۔ ہم نے جب شروع میں خطوط کے ذریعے ثبت کرنا سیکھا تو اسے بہت بڑا کارنامہ قرار دے دیا اور یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ بھی اس طرح ثبت فرماتا ہے۔ بعد میں جب سائنس نے ثبت کرنے کے لیے جدید اسباب کو مسخر کیا تو ہم نے یہ سمجھنا شروع کیاکہ اللہ تعالیٰ بھی اس طرح اعمال و گفتار کو ثبت فرماتا ہے۔

بہرحال یہ تو واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ اعمال کو ثبت فرماتا ہے اور کل قیامت کے دن انسان کو ان ثبت شدہ اعمال کا سامنا پڑے گا۔

وَ وَجَدُوۡا مَا عَمِلُوۡا حَاضِرًا: اس کی دو تفسیریں ہیں: قدیم تفسیر یہ ہے کہ وَ وَجَدُوۡا مَا عَمِلُوۡا حَاضِرًا عمل تو دنیا میں ہو چکا۔ اس دن اس عمل کی جزا حاضر پائیں گے اور تجسم اعمال کا نظریہ اسی سلسلے میں قائم کیا گیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج پر گئے تو دیکھا بعض قصور بن رہے ہیں اور دیگر بعض ادھورے ہیں۔ پوچھنے پر جواب ملا: یہ قصر جس شخص کے لیے زیر تعمیر ہے وہ عمل خیر انجام دیتا ہے تو فرشتوں کو تعمیری مواد فراہم ہوتے ہیں۔ جب وہ نیک عمل کرتا ہے تو اس کا عمل انرجی ہے اور یہ مادے میں بدل جاتی ہے۔

یہ بات بھی اپنی جگہ واضح ہے کہ مادہ انرجی میں اور انرجی مادے میں بدل جاتی ہے۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ کل قیامت کے دن خود عمل کو حاضر پائیں گے اور عمل جب ایک مرتبہ وجود میں آ جائے تو وہ نہیں مٹتا اور

وَ اِنَّ عَلَیۡکُمۡ لَحٰفِظِیۡنَ کِرَامًا کَاتِبِیۡنَ (۸۲انفطار: ۱۰۔ ۱۱)

جب کہ تم پر نگران مقرر ہیں، ایسے معزز لکھنے والے۔

میں کتابت سے مراد خود عمل کا بنفسہ حفظ اور ثبت کرنا ہے۔

اہم نکات

۱۔ انسان کو اپنے تمام اعمال کا سامنا کرنا پڑے گا: مَالِ ہٰذَا الۡکِتٰبِ ۔۔۔۔

۲۔ دنیا میں پردہ رہ جاتا ہے آخرت میں عمل فاش ہو جائے گا۔ عَمِلُوۡا حَاضِرًا ۔۔۔۔

مزید تحقیق کے لیے رجوع فرمائیے: تفسیر عیاشی ۔۲: ۲۸۴


آیت 49