آیت 46
 

اَلۡمَالُ وَ الۡبَنُوۡنَ زِیۡنَۃُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ الۡبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیۡرٌ عِنۡدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیۡرٌ اَمَلًا﴿۴۶﴾

۴۶۔ مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں اور ہمیشہ باقی رہنے والی نیکیاں آپ کے رب کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے اور امید کے اعتبار سے بھی بہترین ہیں۔

تفسیر آیات

اس آیت میں مال و اولاد اور باقیات صالحات میں موازنہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ مال و اولاد جو باقیات صالحات کا مصداق نہیں بنتے وہ صرف چند دنوں کی زیب و زینت ہیں۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن بعض مقامات پر مال کی مذمت کرتا ہے۔ مثلاً فرمایا:

وَ الَّذِیۡنَ یَکۡنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَ الۡفِضَّۃَ وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ (۹ توبہ: ۳۴)

اور جو لوگ سونا اور چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے۔

اور مال کی فضیلت میں فرمایا:

مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۔۔۔۔(۲ بقرۃ: ۲۶۱)

جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں ان(کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس کی سات بالیاں اگ آئیں جن میں سے ہر بالی کے اندر سو دانے ہوں اور اللہ جس (کے عمل) کو چاہتا ہے دگنا کر دیتا ہے۔

اس آیت کی رو سے مال سے وہ نیکی مل سکتی ہے جس کا سات سو گنا ثواب ہے۔ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ کے مطابق اس کو دگنا کریں تو چودہ سو ہو جاتے ہیں۔

اولاد کے بارے میں فرمایا:

وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ (۸ انفال: ۲۸)

اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں اور بے شک اللہ ہی کے ہاں اجر عظیم ہے۔

دوسری طرف انبیاء علیہ السلام اللہ سے اولاد مانگتے ہیں:

رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۔۔۔۔ (۳ آل عمران: ۳۸)

پروردگارا! مجھے اپنی عنایت سے صالح اولاد عطا کر۔

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اتَّبَعَتۡہُمۡ ذُرِّیَّتُہُمۡ بِاِیۡمَانٍ اَلۡحَقۡنَا بِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ ۔۔۔۔ (۵۲ طور: ۲۱)

اور جو لوگ ایمان لے آئے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ان کی اولاد کو (جنت میں) ہم ان سے ملا دیں گے۔

جَنّٰتُ عَدۡنٍ یَّدۡخُلُوۡنَہَا وَ مَنۡ صَلَحَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ ۔۔۔۔ (رعد: ۲۳ )

دائمی جنتیں ہیں جن میں وہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے باپ دادا ان کی ازواج اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے:

اَلْوَلَدُ الصَّالِحُ رَیْحَانَۃٌ مِنَ اللّٰہِ ۔۔۔ (الکافی ۶:۳، باب فضل الولد )

نیک اولاد اللہ کی طرف سے ایک تحفہ ہے۔

دوسری جگہ فرمایا:

مِنْ سَعَادَۃ ِالرَّجُلِ الْوَلَدُ الصَّالِحُ ۔ (الکافی ۶:۳)

نیک اولاد انسان کے لیے باعث سعادت ہے۔

مذمت مال و اولاد: مال اور اولاد کے بارے میں حتی حکومت و اقتدار کے بارے میں اسلام کا موقف یہ ہے کہ یہ چیزیں اگر بذات خود مقصد بن جائیں تو مذمت ہے دوسرے لفظوں میں یہ چیزیں اگر رضائے خدا کے مقابلے میں آجائیں تو مذمت ہے اور اگر یہ چیزیں خود مقصد نہ ہوں بلکہ خدائی مقاصد کے لیے ذریعہ ہوں تو اس صورت میں ان کے لیے فضیلت ہے۔

خود دنیا کی زندگی اگر راہ خدا میں گزاری جائے فضیلت ہے۔ ورنہ دنیا برائے دنیا مذمت ہے۔ اسی لیے حضرت علی علیہ السلام نے اس شخص کی سرزنش فرمائی جو دنیا کی مذمت کر رہا تھا فرمایا:

اِنَّ الدُّنْیَا دَارُ صِدْقٍ لِمَنْ صَدَقَھَا وَ دَارُ عَافِیَۃٍ لِمَنْ فَھِمَ عَنْھَا وَ دَارُ غِنًی لِمَنْ تَزَوَّدَ مِنْھَا وَ دَارُ مَوْعِظَۃٍ لِمَنِ اتَّعَظَ بِھَا مَسْجِدُ اَحِبَّائِ اللّٰہِ وَ مُصَلَّی مَلَائِکَۃِ اللّٰہِ وَ مَھْبِطُ وَحْیِ اللّٰہِ وَ مَتْجَرُ اَوْلِیَائِ اللّٰہِ ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ خ ۱۳۱)

بلاشبہ دنیا اس شخص کے لیے جو باور کرے سچائی کا گھر ہے اور جو اس کی ان باتوں کو سمجھے اس کے لیے امن و عافیت کی منزل ہے اور جو اس سے زاد راہ حاصل کرے اس کے لیے دولتمندی کی منزل ہے اور جو اس سے نصیحت حاصل کرے اس کے لیے وعظ نصیحت کا محل ہے۔ وہ دوستان خدا کے لیے عبادت کی جگہ، اللہ کے فرشتوں کے لیے نماز پڑھنے کا مقام، وحی الٰہی کی منزل اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ ہے۔

مال رضائے الٰہی کا ذریعہ بن جائے تو مال کی نہ صرف مذمت نہیں ہے بلکہ یہ باقیات صالحات کا مصداق بن جاتا ہے۔ قرآن میں جہاں جہاں زکوۃ دینے کا حکم ہے، یہ مال کسب کرنے کا حکم ہے کیونکہ مال کسب کیے بغیر زکوۃ نہیں دی جا سکتی۔ حدیث میں آیا ہے:

الْکَادُّ عَلَی عِیَالِہٖ کَالْمُجَاہِدِ فِی سَبِیْلِ اللہِ ۔ (الکافی ۵:۸۸ باب من کد علی عبالہ)

اپنے اہل و عیال کے لیے محنت کرنے والا راہ خدا میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔

لہٰذا مال کے رضائے الٰہی کا ذریعہ ہونے کا سلسلہ انسان کا اپنا پیٹ پالنے اور اپنے بال بچوں کو پالنے کے لیے روزی کمانے سے شروع ہوتا ہے۔ ایک شخص اپنا پیٹ پالنے اور اپنی عزت و وقار کو بحال رکھنے کے لیے روزی کماتا ہے:

خَیْرَ الْمَالِ مَا وَقَی الْعِرْضَ ۔ (الوسائل۔۹؍۴۵۶، باب الاستفاء عن الناس)

بہترین مال وہ ہے جس سے آبرو محفوظ رہے۔

اس کے بعد غریبوں کی مدد اور راہ خدا میں خرچ کرنے کے لیے کماتا ہے۔ ان سب جگہوں پر مال مقدس مقصد کا ذریعہ ہے۔

مال خود مقصد اور قابل مذمت کب ہوتا ہے؟ وہ بھی پیٹ سے شروع ہوتا ہے۔ ایک شخص اپنے ذاتی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے مال کماتا ہے مگر حرام ذرائع سے کماتا ہے۔ وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے کماتا ہے جو واجب ہے اور واجب، عبادت ہے لیکن اس نے اس واجب عمل کو حرام کے ذریعے انجام دیا تو حرام سے واجب ادا نہیں ہوتا۔ خلاصہ یہ کہ مال جب رضائے الٰہی سے متصادم ہو جائے اور باقیات صالحات کے مصداق میں نہ آئے تو ایسے مال کی مذمت ہے۔

باقیات الصالحات: شیعہ سنی مصادر میں یہ روایت کثرت سے ملتی ہے کہ باقیات صالحات سے مراد تسبیحات اربعہ سبحان اللّٰہ والحمد اللّٰہ ولا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر ہیں، بعض دیگر روایات کے مطابق اس سے مراد نماز ہے۔ درحقیقت ان روایات میں باقیات صالحات کے اہم مصادیق کا ذکر ہے۔

حدیث میں آیا ہے:

اِنَّ کاَنَ اللّٰہُ عزَّ وَ جَلَّ قال اَلۡمَالُ وَ الۡبَنُوۡنَ زِیۡنَۃُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا اِنَّ الثَّمَانِیَۃَ رَکَعَاتٍ یَصلِّیھَا الْعَبْدُ آخِرَ اللَّیْلِ زِینَۃُ الآخِرَۃِ ۔ ( التہذیب۔ ۲: ۱۲۰،باب کیفیۃ الصلوۃ )

اللہ نے تو فرمایا کہ مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں مگر رات کے آخری حصے میں پڑھی جانے والی آٹھ رکعت نماز آخرت کی زینت ہے۔

اہم نکات

۱۔ وہ مال جو خود مقصد ہو، قابل مذمت ہے۔

۲۔ مقدس مقصد کا ذریعہ بننے والا مال، بہترین چیز ہے۔


آیت 46