آیت 44
 

ہُنَالِکَ الۡوَلَایَۃُ لِلّٰہِ الۡحَقِّ ؕ ہُوَ خَیۡرٌ ثَوَابًا وَّ خَیۡرٌ عُقۡبًا﴿٪۴۴﴾

۴۴۔ یہاں سے عیاں ہوا کہ اقتدار تو خدائے برحق کے لیے مختص ہے، اس کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیا ہوا انجام اچھا ہے۔

تشریح کلمات

الۡوَلَایَۃُ:

ابو عبیدہ کے مطابق الوِلایۃ ( بکسرواو ) نصرت کے معنوں میں، الۡوَلَایَۃُ ( بفتح واو ) کسی کام کے متولی ہونے کے معنوں میں ہے لیکن تحقیق یہ ہے کہ الۡوَلَایَۃُ بفتح واو ہو یا بکسر واو دونوں کا ایک معنی ہے۔ یعنی کسی کام کے متولی ہونے کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

اس واقعہ یا مثال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کل کائنات میں اقتدار اعلیٰ اللہ کے پاس ہے۔

لِلّٰہِ الۡحَقِّ: سے یہ بات واضح کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اقتدار اعلیٰ ایک امر واقع اور حق و حقیقت پر مبنی ہے اور اس کے مقابلے میں آنے والی ہر چیز ایک سراب اور دھوکہ ہے۔ اگر کسی کو مال و دولت مل گئی ہے تو اس دولت کے حصول میں آنے والے علل و اسباب سب اللہ کی طرف سے ہیں۔ ان علل و اسباب میں اللہ نے خاصیت ودیعت فرمائی ہے۔ اس طرح ہر ذرے پر اللہ کی ولایت اور حاکمیت قائم ہے۔ اگر ان علل و اسباب سے ان کی خاصیتیں سلب ہو جائیں تو کوئی طاقت نہیں جو ان کو یہ سلب شدہ خاصیت واپس دلا دے۔

اہم نکات

۱۔ سرمایہ دار صرف مادی اقدار کو جانتا ہے: اَنَا اَکۡثَرُ مِنۡکَ ۔۔۔۔

۲۔ مادی انسان اپنی خوش حالی کو دائمی تصور کرتا ہے: مَاۤ اَظُنُّ اَنۡ تَبِیۡدَ ۔۔۔۔

۳۔ مراعات کا عادی شخص آخرت کی مراعات کا اپنے آپ کو حقدار سمجھتا ہے: وَّ لَئِنۡ رُّدِدۡتُّ ۔۔۔ خَیۡرًا ۔۔۔

۴۔ دولت میں بدمست انسان عملاً مالک حقیقی کا منکر ہوتا ہے: اَکَفَرۡتَ بِالَّذِیۡ خَلَقَکَ ۔۔۔۔

۵۔ مؤمن مال کو اللہ کی عطا کردہ نعمت سمجھتا ہے: وَ لَوۡ لَاۤ ۔۔۔ قُلۡتَ مَا شَآءَ اللّٰہُ ۔۔۔۔

۶۔ مؤمن مال پر رحمت خدا کی امید کو ترجیح دیتا ہے: خَیۡرًا مِّنۡ جَنَّتِکَ ۔۔۔۔

۷۔ مؤمن عاقبت اندیش ہوتا ہے۔ مال کی ناپائیداری پر نظر رکھتا ہے: وَ یُرۡسِلَ عَلَیۡہَا حُسۡبَانًا ۔۔۔۔

۸۔ مؤمن کو سرمایہ دار کی ندامت کا مشاہدہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے: فَاَصۡبَحَ یُقَلِّبُ کَفَّیۡہِ ۔۔۔۔


آیت 44