آیت 70
 

وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ وَ حَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا﴿٪۷۰﴾

۷۰۔ اور بتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا اور ہم نے انہیں خشکی اور سمندر میں سواری دی اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں بڑی فضیلت دی۔

تفسیر آیات

اولاد آدم کو اللہ تعالیٰ نے دو باتوں سے نوازا ہے: تکریم اور تفضیل ۔

تکریم: انسان کو خلق کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کو باوقار زندگی بسر کرنے کے سامان فراہم کیے۔ ایسا نہیں کیا کہ انسان اپنی زندگی برقرار رکھنے کے لیے خواری اٹھانے پر مجبور ہو۔ چنانچہ اسی آیت میں اس کے دو مصادیق کا ذکر بھی ہے:

۱۔ وَ حَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ: انسان کو خشکی اور سمندر میں سواری دی۔ مسافت طے کرنے کے لیے سواری فراہم کرنے میں عزت و تکریم ہے۔ جیسا کہ آپ کسی مہمان کو بلاتے ہیں تو اس کی انتہائی تکریم سواری فراہم کر کے کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ انسان کے لیے خشکی اور سمندر کو مسخر کر دیا ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا:

اَللّٰہُ الَّذِیۡ سَخَّرَ لَکُمُ الۡبَحۡرَ لِتَجۡرِیَ الۡفُلۡکُ فِیۡہِ بِاَمۡرِہٖ ۔۔۔۔ (۴۵ جاثیہ: ۱۲)

اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں۔۔۔۔

آپ اپنے مہمان کو عزت و تکریم سے نوازنا چاہتے ہیں تو خدمت گزاروں اور نوکروں کو اس کے اختیار میں رکھتے ہیں۔ چنانچہ اللہ نے انسان کو کسی کے لیے مسخر نہیں فرمایا بلکہ بہت سی دیگر چیزوں کو انسان کے لیے مسخر کیا ہے۔

۲۔ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ: عزت و تکریم کی خاطر اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا کی۔ اگر اللہ تعالیٰ کو انسان کی تکریم منظور نہ ہوتی اور صرف اس کو روئے زمین پر زندہ رکھنا منظور ہوتا تو اس کے لیے جو کا دانہ کافی تھا مگر اس نے انسان کی تکریم کے لیے انواع و اقسام کے کھانے، میوے پیدا کیے اور فرمایا:

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ۔۔۔۔(۲ بقرۃ: ۲۹)

وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پید ا کیا۔

تفضیل : وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا: وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تفضیل کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو دوسری مخلوقات پر ترجیح دی اور اسے اضافی چیزیں عنایت فرمائیں۔ ان میں سے اہم چیز جس سے انسان کو دوسری مخلوقات پر فضلیت دی ہے، عقل ہے جس کی وجہ سے انسان ارتقائی مراحل طے کرنے کے قابل ہو گیا۔

چنانچہ ابتدائی انسان اپنے مقتول بھائی کی لاش چھپانے کا طریقہ نہیں جانتا تھا۔ کوے سے اس طریقے کو سیکھا۔ آج وہ انسان اپنے ارتقائی سفر میں حیرت انگیز مراحل طے کر چکا ہے، جب کہ کوا آج بھی اسی طرح زندگی بسر کرتا ہے۔ پس اللہ تعالی نے انسان کو ارتقائی صلاحیت دے کردوسری مخلوقات پر فضیلت دی ہے۔ دوسری مخلوقات میں ارتقاء کی صلاحیت نہیں ہے۔ چنانچہ جانور آج ایٹمی دور میں بھی اسی طرح چرتے ہیں جس طرح وہ تخلیق کے ابتدائی دور میں چرتے تھے۔

فضیلت تکوینی : واضح رہے انسان کو اللہ تعالیٰ نے بنیادی طور پر تکوینی اور تخلیقی مرحلہ میں دوسروں پر ترجیح دی ہے۔ فضیلت سے مراد تخلیقی ہے، تشریعی نہیں ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ فرماتا:

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿﴾ (۹۵ تین: ۴)

بتحقیق ہم نے انسان کو بہترین اعتدال میں پیدا کیا۔

نیز فرمایا:

وَّ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ وَ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ؕ ۔۔۔ (۴۰ مومن: ۶۴)

اسی نے تمہاری صورت بنائی تو بہترین صورت بنائی اور تمہیں پاکیزہ رزق دیا۔

جیسے

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۳۴)

مرد عورتوں پر نگہبان ہیں ، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔۔۔۔

میں بھی مردوں کو عورتوں پرتفضیل تکوینی ہے۔ تشریعاً فضیلت، عمل و کردار کے نتیجے میں ملتی ہے جیسا کہ

فَضَّلَ اللّٰہُ الۡمُجٰہِدِیۡنَ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ عَلَی الۡقٰعِدِیۡنَ دَرَجَۃً ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۹۵)

اللہ نے بیٹھے رہنے والوں کے مقابلے میں جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ زیادہ رکھا ہے۔۔۔

یہاں تفضیل، اجر و ثواب کے اعتبار سے ہے مگر انسان کو دوسری مخلوقات پر اور مردوں کو عورتوں پر جو فضیلت دی ہے وہ اجر و ثواب اور عند اللہ قرب و منزلت کے اعتبار سے نہیں بلکہ جسمانی اور تخلیقی اعتبار سے ہے۔

احترام آدمیت : انسانوں میں سے مومن کو اللہ نے تکوینی تکریم و تفضیل کے ساتھ تشریعی اعتبار سے بھی عزت و تکریم سے نوازا ہے:

i۔ غیبت مؤمن حرام ہے۔ اس کا راز فاش اور وقار مجروح کرنا حرام ہے۔

ii۔ اہانت مؤمن حرام ہے۔

iii۔ مومن کی عزت و آبرو کو تحفظ دینا اسلامی حکومت پر فرض ہے۔

iv۔ مؤمن کا تمسخر اڑانا حرام ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿﴾ (۴۹ حجرات: ۱۱)

اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی عورتیں عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے پر عیب نہ لگایا کرو اور ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد نہ کیا کرو، ایمان لانے کے بعد برا نام لینا نامناسب ہے اور جو لوگ باز نہیں آتے پس وہی لوگ ظالم ہیں۔

v۔ مؤمن پر بہتان بڑا گناہ ہے:

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ الۡغٰفِلٰتِ الۡمُؤۡمِنٰتِ لُعِنُوۡا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۪ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿﴾ (۲۴نور: ۲۳)

جو لوگ بے خبر پاک دامن مومنہ عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَ فَاجۡلِدُوۡہُمۡ ثَمٰنِیۡنَ جَلۡدَۃً وَّ لَا تَقۡبَلُوۡا لَہُمۡ شَہَادَۃً اَبَدًا ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿﴾ (۲۴نور: ۴)

اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں پھر اس پر چار گواہ نہ لائیں پس انہیں اسّی (۸۰) کوڑے مارو اور ان کی گواہی ہرگز قبول نہ کرو اور یہی فاسق لوگ ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

لِلّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ فِی بِلَادِہِ خَمْسُ حُرَمٍ حُرْمَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ ص وَ حُرْمَۃُ آلِ رَسُولِ اللّٰہِ ص وَ حُرْمَۃُ کِتَابِ اللّٰہِ عزَّ وَ جَلَّ وَ حُرْمَۃُ کَعْبَۃِ اللّٰہِ وَ حُرْمَۃُ الْمُؤمِنِ ۔ (الکافی۸: ۱۰۷)

اللہ تعالیٰ کے ہاں پانچ حرمتیں ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت، آل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت، کتاب اللہ کی حرمت، کعبہ کی حرمت اور مؤمن کی حرمت۔

روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے کعبہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:

حرمۃ المؤمن اعظم من حرمۃ ھذہ البنیۃ ۔۔۔۔ (الاختصاص صفحہ ۳۲۵)

مؤمن کی حرمت اس عمارت (کعبہ) کی حرمت سے عظیم تر ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ نے اولاد آدم کو بنفسہ عزت و تکریم سے نوازا ہے۔

۲۔ انسان کو دوسری مخلوقات پر فضیلت دی ہے۔


آیت 70