آیات 97 - 99
 

وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّکَ یَضِیۡقُ صَدۡرُکَ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۹۷﴾

۹۷۔ اور بتحقیق ہمیں علم ہے کہ یہ جو کچھ کہ رہے ہیں اس سے آپ یقینا دل تنگ ہو رہے ہیں۔

فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ کُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ ﴿ۙ۹۸﴾

۹۸۔ پس آپ اپنے رب کی ثناء کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں ۔

وَ اعۡبُدۡ رَبَّکَ حَتّٰی یَاۡتِیَکَ الۡیَقِیۡنُ﴿٪۹۹﴾

۹۹۔ اور اپنے رب کی عبادت کریں یہاں تک کہ آپ کو یقین (موت ) آ جائے ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّکَ یَضِیۡقُ: اللہ تعالیٰ اپنے حبیبؐ کی دل جوئی فرماتا ہے: ہمیں علم ہے ان کافروں کی باتوں سے آپ دل تنگ ہو رہے ہیں۔ رسول اللہؐ آگاہ ہیں کہ ہر بات اللہ کے علم میں ہے لیکن محض آپؐ کی تسلی اور اظہار شفقت کے لیے فرمایا: ہمیں علم ہے۔ ہم آپ کے حامی ہیں۔ آپ ہمارے حفظ و امان میں ہیں۔ آپ پر جو کچھ گزرتا ہے اس پر ہماری نظر ہے اور آپ کو ضرب لسان سے یہ لوگ جو اذیتیں دے رہے ہیں وہ ہم سن رہے ہیں۔ اپنے مقصد کی راہ میں جن مصیبتوں اور ذہنی پریشانیوں سے دوچار ہو رہے ہیں، ہم ان سے آگاہ ہیں۔

۲۔ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ: ان تکلیفوں اور مصیبتوں کے مقابلے کے لیے اپنے رب کی تسبیح و تحمید اور سجدہ کریں۔ نماز پڑھیں اور اسی عبادت اور بندگی کو تاحیات جاری رکھیں۔

تسبیح و عبادت سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ اس کائنات کے مصدر طاقت سے اتصال پیدا کرنے سے طاقت مل جاتی ہے۔ خالق سے دل لگانے سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔ جس نے اس دل و جان کی بافتگی کی ہے اس سے یہ دل زیادہ مانوس ہے۔ اس انس کے کیف و سرور کے عالم میں دنیا کی مصیبتیں اور مشقتیں آسان ہو جاتی ہیں۔

چنانچہ ابتدائے بعثت میں ایسے ہی نہایت نامساعد حالات میں نازل ہونے والے سورہ مزمل میں ارشاد ہوا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ﴿﴾ قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿﴾ (۷۳ مزمل: ۱۔ ۲)

اے کپڑوں میں لپٹنے والے! رات کو اٹھا کیجیے مگر کم،

نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ﴿﴾ (۷۳ مزمل: ۳)

آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لیجیے۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے نماز اور عبادت کے ذریعے تیار فرما رہا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد فرمایا:

اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا﴿﴾ (۷۳ مزمل: ۵)

عنقریب آپ پر ہم ایک بھاری حکم (کا بوجھ) ڈالنے والے ہیں۔

۔عبادت ہر بے سہارا انسان کے لیے سہارا اور ہر کمزور کے لیے طاقت ہے۔ عبادت سے انسان کے پائے استقامت میں لغزش و لرزش نہیں آتی۔ چنانچہ سورہ المعارج آیت ۱۹ میں فرمایا:

اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا ﴿﴾ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوۡعًا ﴿﴾ وَّ اِذَا مَسَّہُ الۡخَیۡرُ مَنُوۡعًا ﴿﴾ اِلَّا الۡمُصَلِّیۡنَ ﴿﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ دَآئِمُوۡنَ ﴿۪﴾ (۷۰ معارج: ۱۹ تا ۲۳)

انسان یقینا کم حوصلہ خلق ہوا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے، اور جب اسے آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے، سوائے نمازگزاروں کے،جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں۔

نماز گزار، تکلیف کے وقت اضطراب اور جزع فزع کا شکار نہیں ہوتا۔

۳۔ وَ اعۡبُدۡ رَبَّکَ: بعض اہل ضلال ایک گمراہ کن نظریہ پیش کرتے ہیں کہ سلوک میں کوئی مرتبہ ایسا آتا ہے کہ جہاں انسان یقین کی منزل پر فائز ہو جاتا ہے۔ اس مرتبے پر فائز ہونے کے بعد تکلیف شرعی ساقط ہو جاتی ہے۔ جہالت و ضلالت پر مبنی اپنے نظریہ کی تائید میں یہ آیت پیش کرتے ہیں : وَ اعۡبُدۡ رَبَّکَ حَتّٰی یَاۡتِیَکَ الۡیَقِیۡنُ ۔ اپنے رب کی عبادت کرو، یہاں تک کہ یقین آ جائے۔

یہاں بالاتفاق یقین سے مراد موت ہے۔ اس کو یقین اس لیے کہا گیا ہے چونکہ اس کا آنا حتمی اور یقینی ہے یا اس لیے کہ موت آنے کے بعد انسان عالم شہود و عیاں میں جاتا ہے اور ہر اس بات پر یقین آتا ہے جس پر دنیا میں ایمان بالغیب رکھتا تھا۔

قرآن مجید میں دوسری جگہ ’’یقین‘‘ کو موت کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور چونکہ یہ لفظ جہنمیوں نے استعمال کیا ہے، لہٰذا یقین سے مراد سلوک و عرفان کی منزل یقینا نہیں ہو سکتی۔

چنانچہ جہنمیوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کون سی چیز جہنم میں لے آئی؟ وہ جواب میں کہیں گے:

لَمۡ نَکُ مِنَ الۡمُصَلِّیۡنَ ﴿﴾ وَ لَمۡ نَکُ نُطۡعِمُ الۡمِسۡکِیۡنَ ﴿﴾ وَ کُنَّا نَخُوۡضُ مَعَ الۡخَآئِضِیۡنَ ﴿﴾ وَ کُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوۡمِ الدِّیۡنِ ﴿﴾ حَتّٰۤی اَتٰىنَا الۡیَقِیۡنُ ﴿﴾ ( ۷۴ مدثر:۴۳ تا ۴۷)

ہم نماز گزاروں میں سے نہ تھے، اور ہم مسکین کو کھلاتے نہیں تھے، اور ہم بیہودہ بکنے والوں کے ساتھ بیہودہ گوئی کرتے تھے، اور ہم روز جزا کو جھٹلاتے تھے۔ یہاں تک کہ ہمیں موت آ گئی۔

حقیقت یہ ہے کہ یقین کی منزل پر آنے والے اپنے معبود کے اس قدر عاشق ہوتے ہیں کہ وہ ایک دن میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھنے کے بعد مناجات میں اللہ کی بارگاہ سے عذر خواہی کرتے ہیں کہ بندگی کا حق ادا نہ ہوا۔ چنانچہ لو کشف الغطاء ما ازددت یقینا (غرر الحکم ص ۱۱۹ ) اگر (عبد اور معبود میں ) پردہ ہٹ جائے تو بھی میرے یقین میں اضافہ نہ ہو۔ یہ فرمان ارشاد فرمانے والی ذات رات کو محراب عبادت گڑگڑا کے فرماتی ہے: آہ من قلۃ الزاد و بعد السفر ۔ (المناقب ۲: ۱۰۳) ہائے! زاد راہ کتنا تھوڑا اور سفر کتنا لمبا ہے۔

اہم نکات

۱۔ مشکل کی گھڑیوں میں پریشان حال انسان کے لیے عبادت سہارا ہے۔


آیات 97 - 99