آیت 10
 

قَالَتۡ رُسُلُہُمۡ اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ یَدۡعُوۡکُمۡ لِیَغۡفِرَ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُؤَخِّرَکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ قَالُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا ؕ تُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا کَانَ یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاۡتُوۡنَا بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ﴿۱۰﴾

۱۰۔ ان کے رسولوں نے کہا: کیا (تمہیں) اس اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں اس لیے دعوت دیتا ہے تاکہ تمہارے گناہ بخش دے اور ایک معین مدت تک تمہیں مہلت دے، وہ کہنے لگے: تم تو ہم جیسے بشر ہو تم ہمیں ان معبودوں سے روکنا چاہتے ہو جن کی ہمارے باپ دادا پوجا کرتے تھے، پس اگر کوئی کھلی دلیل ہے تو ہمارے پاس لے آؤ۔

تشریح کلمات

فَاطِرِ:

( ف ط ر ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو طول میں پھاڑنے کے ہیں۔ جوہری نے صحاح میں کہا ہے۔ والفطر الابتداء والاختراع ۔ الفطر ابتدا اور ایجاد کرنے کو کہتے ہیں۔ پھر حضرت ابن عباس کا یہ قول نقل کرتے ہیں : میں فاطر السموات کے معنی نہیں سمجھتا تھا کہ دو بدو کنویں کا نزاع لے کر میرے پاس آئے۔ ان میں سے ایک نے کہا: انا فطرتھا ۔ ابتدا میں نے کی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالَتۡ رُسُلُہُمۡ: تقریبا ہر نبی کو ان مشرکین سے واسطہ پڑتا تھا جو اللہ کے وجود کو مانتے اور یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ وہی آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔

۲۔ اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ: اس آیت میں موجد عالم کی وحدت سے معبود کی وحدت پر استدلال کیا گیا ہے کہ سینہ عدم کو چیر کر اس کائنات کا ایجاد کرنے والا اللہ ہے تو کیا اسی ذات کے قابل پرستش ہونے میں شک کرنے کی کوئی گنجائش ہے؟

آیت کا اخیری جملہ تُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا ۔۔۔۔ دلیل ہے کہ اس آیت کے مخاطبین مشرکین تھے جو اللہ کے موجد کائنات ہونے کے قائل تھے۔

۳۔ یَدۡعُوۡکُمۡ لِیَغۡفِرَ لَکُمۡ: دعوت انبیاء (ع) درحقیقت اللہ کی رحمت کی طرف دعوت ہے۔ یَدۡعُوۡکُمۡ لِیَغۡفِرَ لَکُمۡ وہ تمہیں اس لیے دعوت دیتا ہے تاکہ وہ تمہارے گناہ بخش دے اور انبیاء علیہم السلام اس رحمت حق کے لیے وسیلہ ہیں۔

۴۔ وَ یُؤَخِّرَکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ: نیک عمل سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ وَ یُؤَخِّرَکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی اجل مسمی حتمی اور اجل غیر مسمی غیر حتمی کے بارے میں ہم نے سورہ انعام آیت ۳ میں تشریح کی ہے۔ آیت یہ بتانا چاہتی ہے کہ اگر تم نے اس تقدیر ساز دعوت پر لبیک کہہ دی تو تم کو حتمی اجل تک زندگی دی جائے گی۔ دوسری صورت میں قبل از وقت ہلاکت آسکتی ہے اور بداء یہی ہے جس کے تمام مفسرین قائل ہیں۔

چنانچہ صاحب تفہیم القرآن بداء کی غیر شعوری طور پر تعریف کرتے ہیں:

اللہ کے ہاں مدت کا تعین قوموں کے اوصاف کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ ایک اچھی قوم اگر اپنے اندر بگاڑ پیدا کرے تو اس کی مہلت عمل گھٹا دی جاتی ہے اور اسے تباہ کر دیا جاتا ہے اور ایک بگڑی ہوئی قوم اگر اپنے برے اوصاف کو اچھے اوصاف میں بدل لے تو اس کی مہلت عمل بڑھا دی جاتی ہے۔ (تفہیم القرآن ۲: ۴۷۶)

اہم نکات

۱۔ اللہ کی وحدانیت ناقابل تشکیک ہے۔

۲۔ دعوت انبیاء مغفرت کے لیے ہے۔

۳۔ اطاعت سے زندگی لمبی ہو جاتی ہے۔


آیت 10