آیت 5
 

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اَنۡ اَخۡرِجۡ قَوۡمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ۙ وَ ذَکِّرۡہُمۡ بِاَیّٰىمِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ﴿۵﴾

۵۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا(اور حکم دیا)کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ اور انہیں ایام خدا یاد دلاؤ، ہر صبر و شکر کرنے والے کے لیے یقینا ان میں نشانیاں ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی: انبیاء علیہم السلام کی مسؤلیت کی یکسانی کی طرف اشارہ ملتا ہے اور وہ اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جانا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ملتا ہے کہ (اپنی قوم کو) اندھیروں سے نکالیں اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم ملتا ہے: (لوگوں کو) اندھیروں سے نکالیں۔

۲۔ وَ ذَکِّرۡہُمۡ بِاَیّٰىمِ اللّٰہِ: ایام اللّٰہ سے مراد تاریخ انسانیت کے وہ ایام ہو سکتے ہیں جن میں انسان کے لیے درسہائے عبرت، صبر و شکر کے مواقع موجود ہیں۔ مثلاً بنی اسرائیل کی فرعون کی غلامی اور اس کے ظلم و ستم کے ایام، صبر و تحمل کے ایام ہیں اور فرعون سے نجات ، کشتی نوح کے ذریعے نجات، آتش نمرود سے نجات کے ایام، شکر کے ایام ہیں ۔

۳۔ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ: ان ایام میں ایسی نشانیاں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعات، مکافات کے ایک جامع قانون کے تحت رونما ہوتے ہیں۔ ان کے پیچھے ایک شعور و ارادہ حاکم ہے اور وہ ارادہ، مشیت الٰہی ہے۔ اسی لیے ان نشانیوں کا ادراک صبر و شکر کرنے والے ہی کر سکتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ تاریخ میں اللہ کی نشانیاں موجود ہیں : اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ ۔۔۔۔

۲۔ تاریخ انسانی میں درسہائے عبرت موجود ہیں : اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ ۔۔۔۔

۳۔ صبر اور شکر سے آیات الٰہی کا ادراک ہوتا ہے: لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ ۔


آیت 5