آیت 53
 

وَ مَاۤ اُبَرِّیٴُ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۵۳﴾

۵۳۔ اور میں اپنے نفس کی صفائی پیش نہیں کرتا، کیونکہ (انسانی) نفس تو برائی پر اکساتا ہے مگر یہ کہ میرا رب رحم کرے،بیشک میرا رب بڑا بخشنے، رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

انبیاء علیہم السلام عرفان کی اس منزل پر فائز ہوتے ہیں کہ وہ اپنے ہر عمل میں رب کی طرف توجہ رکھتے ہیں۔ اگر رب کی رحمت شامل حال نہ ہو تو نفس امارہ انسان کو برائی کی طرف لے جائے۔ تقریباً اسی مضمون کی آیت (۳۳) پہلے گزر گئی: وَ اِلَّا تَصۡرِفۡ عَنِّیۡ کَیۡدَہُنَّ اَصۡبُ اِلَیۡہِنَّ وَ اَکُنۡ مِّنَ الۡجٰہِلِیۡنَ یہ جملہ آپؑ نے رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَیۡہِ کے بعد فرمایا اور اس آیت میں لَمۡ اَخُنۡہُ بِالۡغَیۡبِ کے بعد کہا کہ میں اپنے نفس کی برائت نہیں کرتا ہوں۔ نفس تو برائی پر اکساتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام ان اعمال کو اپنا کمال تصور کرنے کی جگہ انہیں مدد الٰہی سمجھتے ہیں۔

اس بیان سے ان لوگوں کے لیے شافی جواب مل گیا جو اس جملے کو حضرت یوسف علیہ السلام کے شایان شان نہیں سمجھتے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ نفس مومن کو اپنی حالت پر نہیں چھوڑتا ورنہ نفس بے لگام ہے۔ دعا کا جملہ ہے: رَبِّ لَا تَکِلْنِی اِلَی نَفْسِی طَرْفَۃَ عَیْنٍ اَبَدًا ۔ ( الکافی ۲: ۵۸۱ باب دعوات موجزات۔ ۔۔۔) اے مالک! چشم زدن کے لیے بھی مجھے میرے نفس کے حوالے نہ فرما۔


آیت 53