آیت 52
 

ذٰلِکَ لِیَعۡلَمَ اَنِّیۡ لَمۡ اَخُنۡہُ بِالۡغَیۡبِ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ کَیۡدَ الۡخَآئِنِیۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔ (یوسف نے کہا) ایسا میں نے اس لیے کیا کہ وہ جان لے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کی اور اللہ خیانت کاروں کے مکر و فریب کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کرتا۔

تفسیر آیات

حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ بات کہ میں نے زندان سے آزاد ہونے کو قبول نہیں کیا اور اپنے اوپر عائد الزام کی تحقیقات کی شرط لگائی تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے اور عزیز جان لے کہ میں نے در پردہ اس کی ناموس کے بارے میں کوئی خیانت نہیں کی ہے اور دنیا والے بھی یہ جان لیں کہ مکر و فریب پر مبنی کوئی سازش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتی، اس وقت کہی ہو گی جب شاہی دربار میں فیصلہ آپؑ کے حق میں ہوا۔

بعض مفسرین نے کہا ہے یہ جملہ عزیز کی بیوی کا ہے کہ اس نے کہا: میں نے یوسف علیہ السلام کی غیر حاضری میں اس کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کی ہے بلکہ اپنے جرم کا اقرار کر رہی ہوں۔ یہ سیاق آیت کے صریح خلاف ہے کیونکہ عزیز کی بیوی کی خیانت کی وجہ سے یوسف علیہ السلام آٹھ نو سال زندان میں رہ چکے ہیں۔ اس کے باوجود وہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ میں نے یوسف علیہ السلام کی غیر حاضری میں اس کے ساتھ خیانت نہیں کی ہے؟ رہی یہ بات کہ اس نے اعتراف کیا ہے، خیانت نہیں کی ہے، بالکل غیر مربوط بات ہے۔ چونکہ یہ خیانت کا اعتراف ہے جس سے خیانت ختم نہیں ، ثابت ہو جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے عزیز مصر کو پہلے ہی یوسف علیہ السلام کی بے گناہی کا علم تھا۔ یہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ اگرچہ قمیض کے پیچھے سے پھٹنے کی وجہ سے جو شہادت ملی تھی اس بنا پر عزیز مصر نے اس وقت تو مان لیا اس کی بیوی خطا کار تھی لیکن یہ بات باکل ثابت نہیں کہ یہ موقف تاآخر برقرار رہا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو حضرت یوسف علیہ السلام کو زندان نہ بھیجتا اور پھر کلام سے پیغمبرانہ خوشبو آتی ہے۔ عزیز کی بیوی جیسی ایک غیر ذمہ دار عورت نہیں کہہ سکتی: وَ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ کَیۡدَ الۡخَآئِنِیۡنَ ۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کے ساتھ معاملہ درست ہو تو بھی لوگوں میں بدگمانی دور کرنا چاہیے: لِیَعۡلَمَ اَنِّیۡ لَمۡ اَخُنۡہُ ۔۔۔۔

۲۔ خیانت کو کامیابی حاصل نہیں ہوتی: لَا یَہۡدِیۡ کَیۡدَ الۡخَآئِنِیۡنَ ۔۔۔۔


آیت 52