آیت 51
 

قَالَ مَا خَطۡبُکُنَّ اِذۡ رَاوَدۡتُّنَّ یُوۡسُفَ عَنۡ نَّفۡسِہٖ ؕ قُلۡنَ حَاشَ لِلّٰہِ مَا عَلِمۡنَا عَلَیۡہِ مِنۡ سُوۡٓءٍ ؕ قَالَتِ امۡرَاَتُ الۡعَزِیۡزِ الۡـٰٔنَ حَصۡحَصَ الۡحَقُّ ۫ اَنَا رَاوَدۡتُّہٗ عَنۡ نَّفۡسِہٖ وَ اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیۡنَ﴿۵۱﴾

۵۱۔ (بادشاہ نے عورتوں سے) پوچھا: اس وقت تمہارا کیا واقعہ تھا جب تم نے یوسف کو اس کے ارادے سے پھسلانے کی کوشش کی تھی؟ سب عورتوں نے کہا: پاکیزہ ہے اللہ، ہم نے تو یوسف میں کوئی برائی نہیں دیکھی، (اس موقع پر) عزیز کی بیوی نے کہا: اب حق کھل کر سامنے آ گیا، میں نے ہی یوسف کو اس کی مرضی کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی تھی اور یوسف یقینا سچوں میں سے ہیں۔

تشریح کلمات

خطبکم:

( خ ط ب ) الخطب اہم معاملہ جس کے بارے میں کثرت سے تخاطب ہو۔

حَصۡحَصَ الۡحَقُّ: ( ح ص ح ص ) کے معنی ہیں حق بات جو کسی دباؤ کی وجہ سے چھپی ہوئی ہو۔ اس دباؤ کے دور ہونے کی وجہ سے واضح ہو کر سامنے آ گئی۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالَ مَا خَطۡبُکُنَّ: بادشاہ بذات خود اس مسئلہ پر تحقیق شروع کرتا ہے اور لگتا ہے ان عورتوں سے سوال کرنے سے پہلے بادشاہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچ چکا تھا۔ چنانچہ بادشاہ کے سوال کا لب و لہجہ بتاتا ہے: مَا خَطۡبُکُنَّ وہ قابل توجہ معاملہ اور اس کی حقیقت کیا تھی جب تم نے یوسف کو پھسلانے کی کوشش کی تھی۔ شاہ کے سوال میں یہ امر مسلم مانا گیا ہے کہ اقدام جرم عورتوں کی طرف سے ہی ہوا تھا: اِذۡ رَاوَدۡتُّنَّ ۔ سوال یہ تھا کہ اس اقدام کے بعد کیا ہوا؟ عورتوں نے دیکھا کہ اس جگہ اعتراف جرم کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ جواب میں کہا:

۲۔ قُلۡنَ حَاشَ لِلّٰہِ: پاکیزہ ہے اللہ کی ذات۔ ہم نے یوسف علیہ السلام میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔ معاملہ اس حد تک واضح ہو چکا تھا کہ عورتوں نے اپنی صفائی تک پیش نہیں کی۔ صرف یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی گواہی دی۔

سوال پہلے دیگر عورتوں سے اس لیے ہوا کہ وہ اس واقعہ کی عینی شاہد تھیں۔ ان سب کے سامنے عزیز کی بیوی نے کہا تھا: میں نے یوسف علیہ السلام کو پھنسانے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے اپنی عصمت قائم رکھی۔ اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کر دیا جائے گا (آیت ۳۲)۔ چنانچہ یوسف علیہ السلام کو قید کیاجانا ان کی پاکدامنی کا ایک ثبوت تھا۔

۳۔ قَالَتِ امۡرَاَتُ الۡعَزِیۡزِ: بعدمیں اس جرم کی مرکزی کردار عزیز کی بیوی نے دیکھا راز کھل چکا ہے، حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے، اب اعتراف جرم کے سوا کوئی صورت باقی نہیں رہی ہے۔ کہا: اب حق کھل کر سامنے آ گیا۔ میں نے ہی یوسف علیہ السلام کو اپنے ارادے سے پھسلانے کی کوشش کی تھی۔ وہ بالکل سچے ہیں۔

مقدمہ ختم ہوا۔ یوسف علیہ السلام کی فتح ہوئی۔ اس طویل سازش میں کنعان کا غریب الوطن غلام اور برسوں کا زندانی کامیاب ہوا۔ جب کہ عزیز مصر، اس کی بیگم اور بڑے بڑے خاندانوں کی بیگمات ناکام ہو گئیں۔ آخر میں وہ حق و صداقت کے سامنے سرنگوں ہوئیں اور حق سربلند ہوا۔

اہم نکات

۱۔ حق ایسی طاقت ہے جس کے سامنے دوسری طاقتیں سرنگوں ہو جاتی ہیں : الۡـٰٔنَ حَصۡحَصَ الۡحَقُّ ۔۔۔۔

۲۔ دنیا والے کتنا ہی جھٹلائیں ، سچائی دب نہیں سکتی: وَ اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ۔


آیت 51