آیت 6
 

مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ ٪﴿۶﴾

۶۔ وہ جنات میں سے ہوں یا انسانوں میں سے۔

تفسیر آیات

مِنَ بیانیہ ہے وسواس خناس کا۔ یعنی انسان اور جنات دونوں میں خناس صفت ہوتے ہیں:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیۡنَ الۡاِنۡسِ وَ الۡجِنِّ۔۔۔ (۶ انعام: ۱۱۲)

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے جن و انس کے شیطانوں کو دشمن قرار دیا ہے۔

حدیث نبوی ہے:

ما من مومن الا و لقلبہ فی صدرہ اذنان اذن ینفث فیھا الملک و اذن ینفث فیھا الوسواس الخناس فیؤید اللہ المؤمن بالملک وھو قولہ سبحانہ وَ اَیَّدَہُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ۔ (بحار ۶۰: ۱۹۴)

کوئی ایسا نہیں ہے جس کے سینے میں دل، دو کان نہ ہوں۔ ایک میں فرشتہ پھونکتا ہے اور دوسرے کان میں وسواس خناس پھونکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ مومن کی فرشتے کے ذریعہ تائید کرتا ہے اور اللہ کے فرمان وَ اَیَّدَہُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ کا یہی مطلب ہے۔

اللّٰھم ایدنا بروحک واحفظنا من شر شیاطین الجن والانس برحمتک و تمت کلمۃ ربک صدقاً و عدلاً۔

کلمۂ ختام

الحمد اللّٰہ الکوثر فی تفسیر القرآن لکھنے کا جو کام میں نے سنہ ۱۹۸۷ء میں شروع کیا تھا وہ چوبیس سال بعد آج پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا ہے اور اسے حسن اتفاق سمجھ لیجیے یا حسن ختام کا اشارہ کہ اس تفسیر کا کام ماہ مبارک رمضان کی ۲۳ویں شب، شب قدر، شب نزول قرآن سنہ ۱۴۳۲ ہجری بمطابق ۲۴ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو اپنے اختتام کو پہنچا۔

اہل علم سے امید کرتا ہوں کہ وہ میری غلطیوں سے مجھے آگاہ فرمائیں گے۔ انسان کا کوئی کام لغزشوں اور خامیوں سے مُبرا نہیں رہتا۔ فان العصمۃ لاھلھا۔

کوئی غلطی عمداً نہیں کی۔ بعض احادیث کی نقل میں تسامح ہو سکتا ہے اسے بھی ہم نے اپنے ذمے نہیں لیا بلکہ بذمہ راوی نقل کیا ہے۔ یعنی اس بات کا التزام کیا ہے کہ نقل روایت کے موقع پر رسول اللہؐ یا امامؑ نے فرمایا نہ لکھوں بلکہ اس طرح لکھتا ہوں: ’’روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا امام علیہ السلام نے فرمایا۔‘‘ جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

اِذَا حَدَّثْتُمْ بِحَدِیثٍ فَاَسْنِدُوہُ اِلَی الَّذِی حَدَّثَکُمْ فَاِن کَانَ حَقّاً فَلَکُمْ وَ اِنْ کَانَ کَذِباً فَعَلَیْہِ۔ (الکافی ۱: ۵۲)

جب تم کوئی حدیث بیان کرو تو اس کی طرف نسبت دو جس نے تم سے حدیث بیان کی ہے۔ اگر سچ ہے تو تمہارا بھلا ہوا ہے۔ اگر جھوٹ ہے تو اس شخص کی گردن پر ہے۔

فضائل اہل بیت علیہم السلام میں مذکور احادیث کے بارے میں بھی اہل علم مجھ سے مواخذہ نہیں کریں گے چونکہ مناقب کے بارے میں ضعیف حدیث بھی اہل علم کے ہاں حجت ہے۔ چنانچہ احمد بن حجر الہیتمی المکی متوفی ۹۷۴ھ لکھتے ہیں:

قلت: الذی اطبق علیہ ائمتنا الفقھاء والاصولیون والحفاظ: ان الحدیث الضعیف حجۃ فی المناقب۔

ہمارے فقہاء، اصولیوں اور حافظین حدیث نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مناقب میں ضعیف حدیث بھی حجت ہے۔

ملاحظہ ہو: تطھیر الجنان صفحہ ۱۳، طبع القاھرۃ۔

ثم انما الاعمال تخلص بصدق النیّات۔

اس تفسیر کی فارمیٹنگ، طباعت، ترتیب و تدوین کا معیار آپ کے سامنے ہے جو جناب محترم اظہر علی رضوی مرحوم و مغفور کی شب و روز کی محنت شاقہ کا ثمرہ ہے۔ مجھے امید ہے ان کی طرف سے کلام اللہ کی یہ خدمت اللہ کی بارگاہ میں قبول ہے نیز عزیزان خادم حسین اور علی حیدری کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے پوری توجہ سے اس تفسیر کی کمپوزنگ اور تدوین میں محترم سید اظہر علی رضوی مرحوم و مغفور کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمت اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین۔

قدتم بحمد اللہ و لطفہ و حسن توفیقہ

تفسیر الکوثر

لکتاب اللّٰہ العلی الاکبر

و کان مسک الختام و نیل المرام مصادفا للیلۃ الثالثۃ و العشرین من شھر الصیام شھر ربیع القرآن و فی لیلۃ القدر لیلۃ نزول القرآن فی الساعۃ الثالثۃ بعد منتصف اللیل من ۱۴۳۲ ھ۔

اسئل المولی سبحانہ ان یجعلہ ذخراً لآخرتی و زاداً لیوم فقری و فاقتی انہ سمیع مجیب۔ و الحمد للّٰہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات و صلی اللّٰہ علی حبیبہ محمد و آلہ الطاہرین۔

محسن علی نجفی

بن العلامۃ حسین جان تغمدہ اللّٰہ بواسع رحمتہ

اسلام آباد


آیت 6